13 اگست ، 2024
کراچی: سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے 9 مئی واقعات کی پلاننگ میں کردار ادا کیا جب کہ سیاسی شخصیات اور صحافیوں کو قتل کرانے کی بھی کوشش کی۔
جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ فیض حمید نے تحقیقات سے بچنے کیلئے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، وزیراعظم سے بھی ملنے کی کوشش کی لیکن شہباز شریف نے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں، ان کے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں کافی تعلقات تھے، وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے تحقیقات سے بچنے کی کوشش کرتے رہے اور اس وقت جو موجودہ وزیراعظم ہیں شہباز شریف، اِن سے اُنہوں نے ملاقات کی سر توڑ کوشش کی، ان کو پیغامات بھجوائے بلکہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل کچھ لوگوں نے بھی سفارش کی جنرل فیض کی کہ شہباز شریف آپ ان سے ملاقات کر لیں لیکن شہباز شریف نے جنرل فیض کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے اور ان سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ اس کے بعد حال ہی میں کچھ انویسٹی گیشنز ہوئیں، جنرل فیض کے بارے میں یہ افواہیں پھیلائی جاتی تھیں کہ وہ بڑی پابندیوں کا شکار ہیں وہ کسٹڈی میں ہیں یا ہاؤس اریسٹ ہیں، ایسی کوئی بات نہیں تھی وہ بالکل آزاد تھے اور ان کی آزادی ان کی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ ان کے رابطوں کو مانیٹر کیا جارہا تھا، اس دوران یہ بھی پتا چلا کہ جنرل فیض حمید کا 9 مئی 2023 کے واقعات کی پلاننگ میں کردار تھا، بغاوت کی جو کوشش تھی اس میں بھی ان کے مشورے شامل تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال فیض حمید کے حوالے سے کچھ شواہد ملے کہ جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے کچھ سیاسی شخصیات اور صحافیوں کو قتل کرانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں باقاعدہ کچھ ثبوت بھی حاصل کیے گئے ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ حکومت کو تھوڑے دن پہلے ہی ان کے بارے میں پتا چلا کہ وہ ابھی بھی پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اپنی پارٹی قیادت کو شکایت بھی کی کہ جنرل فیض ہم سے رابطہ کرکے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کیا کریں جس پر انہیں کہا گیا کہ آپ کو ان کی بات سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ بات حکومت تک پہنچ گئی اور اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے تحقیقات کا حکم دیا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ فیض حمید پر مالی بدعنوانی، بزنس مین کو اغوا کرنے، جمہوریت کو کچلنے اور عدالتوں کو مینج کرنے کا الزام ہے، عدالتوں نے فیض حمید کا معاملہ فوج پر چھوڑا تھا کہ وہ کیا کارروائی کرتے، فوج نے معاملہ ٹیک اپ بھی کیا لیکن کارروائی میں تاخیر پر سوال اٹھ رہے تھے۔
ماہر قومی سلامتی امور سید محمد علی نے کہا کہ فیض حمید کو تحویل میں لینے کا مطلب ہے کہ ان کیخلاف تحقیقات اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، ان کی گرفتار ی عوام اور سول اداروں کو پیغام ہے کہ ہمارا اعلیٰ ترین افسر بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔