02 اکتوبر ، 2024
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران خود کو پی ٹی آئی کا ورکر کہنے والے شخص نے ججز کو دھمکی دی اور کہا کہ دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پانچ رکنی لارجربینچ نے 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئےکہا بینچ قانونی نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نےکہا کہ ججزکی پسند یا ناپسند کی بات نہیں۔
پی ٹی آئی کے ورکر مصطفین کاظمی نے بلا اجازت روسٹرم پر آکر کہاکہ پانچ رکنی بینچ غیر آئینی ہے، ہمارے 500 وکیل باہر موجود ہیں، دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ دیتے ہیں، ہدایت کے باوجود نہ بیٹھنے پر چیف جسٹس نے مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دے دیا ۔
چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی علی ظفر سے کہا آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں یہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ سے جو تھوڑی ہمدردی تھی وہ بھی اس رویے سے ختم ہوگئی، وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمے میں کہا آپ وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل ہیں،وکیل کےکنڈکٹ کانوٹس لیا؟ فاروق نائیک بولے سپریم کورٹ سےبدتمیزی کرنے والے وکیل کو نوٹس جاری کیا جائےگا۔
علی ظفر نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے چیمبر ورک کا ذکرکیا تو چیف جسٹس نےکہا کہ آپ ججز کو سب کے سامنے بےعزت کرنا چاہتے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا آپ روسٹرم پرکیوں کھڑے ہیں یا ایسے دلائل کیوں دے رہے ہیں، آپ کیسے کہہ سکتے کہ میرا کوئی ایکٹ فلاں وجہ سے ہے، کسی جج یا آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ میرے مائنڈ کے حوالے سے بات کرے، آپ نے مفروضوں پر بات کی، میرے ایکٹ بالکل شفاف ہیں۔
چیف جسٹس نے بینچ پراعتراض مسترد کردیا اورکہا ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں۔
عدالت نے علی ظفر کو بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کی اجازت دیتے ہوئے کہا کوشش کریں آج رات تک ملاقات ہو جائے۔ سماعت جمعرات صبح گیارہ بجےتک ملتوی کردی گئی۔