29 فروری ، 2012
اسلام آباد… سپریم کورٹ آج اصغر خان کیس کی سماعت تقریبا 12سال چار ماہ بعد دوبارہ شروع کر رہی ہے اس کیس میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاست دانوں کو رقم دینے کے الزامات ہیں۔ تاریخ اور مقدمے کی فائل کے اوراق الٹنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصغر خان کیس کی آخری سماعت اس وقت کے چیف جسٹس ، جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز نثار اور جسٹس کمال منصور عالم پر مشتمل بینچ نے کی تھی ۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ یہ آخری سماعت 12اکتوبر 1999کی صبح ہوئی اور اسی رات ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا اور منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کر کے خود اقتدار سنبھال لیا ۔اصغر خان کیس کی آخری سماعت میں اس وقت کے بینچ نے ایک متفرق درخواست پر اٹارنی جنرل کو جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا تھا اور یہ التوا ء 12 سال ، 4 ماہ پر محیط ہو گیا۔مقدمے کی فائل کی ایک اور تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی کے رہ نما اور اس وقت کے وزیر داخلہ مرحوم نصیر اللہ خان بابر نے پہلے 23اکتوبر اور پھر نومبر 1997 کو ایک بیان حلفی داخل کیا تھا جس کے ساتھ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی، جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت جرمنی میں سفیر تھے ،، کا وہ بیان حلفی بھی شامل ہے جس میں تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ مہران بنک کے 14کروڑ روپے کی مبینہ رقم کس کس میں تقسیم کی گئی۔ نصیر اللہ بابر کے بیان حلفی کے مطابق جب انہوں نے اس بارے اْس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو صورت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کو مناسب کارروائی پر کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ ان کے مطابق فوج کا بطور ادارہ اس کام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ بعض افراد کا ذاتی فعل ہے جس کی اچھائی یا برائی کو عدالتوں میں پرکھا جاسکتا ہے۔ نصیر اللہ بابر کے بیان حلفی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے بعد جنرل کاکڑ اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اس وقت کے فوج کے سپریم کمانڈر اور صدر فاروق لغاری کے پاس گئے اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ صدر لغاری نے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر سے دریافت کیا کہ آپ مسلح افواج کے خلاف کس طرح کارروائی کر سکتے ہیں تو نصیر اللہ بابر نے صدر فاروق لغاری کو بتایا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف ، دونوں نے اجازت دے دی ہے۔ اس پر مسلح افواج کے سپریم کمانڈر صدر فاروق لغاری نے بھی اجازت دے دی۔ نصیر اللہ بابر کے بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے رحمان ملک کو جولائی 1996ء میں اسد دررانی سے بیان حلفی لینے کے لیے جرمنی بھی بھیجا گیا تھا ۔