24 فروری ، 2013
لندن…برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھارت آئے تو ان سے انیسویں صدی میں قبضے میں لیا گیا کوہ نور ہیرا واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر انہوں نے صاف انکار کردیا، تاریخی اہمیت کا حامل یہ ہیرا اس وقت ٹاور آف لندن میں رکھا ہے۔ٹاور آف لندن کی زینت بنا ۔ شاہی تاج میں جڑا ،یہ ہے خوبصورت کوہ نور،دنیا کا سب سے بڑا ہیرا،جس کا وزن ہے ، 105 قیراط۔سن 1850 میں ،جب ہندوستان پر برطانوی راج تھا۔کوہِ نور کو بھارت پر قابض برطانوی گورنر جنرل نے ملکہ وکٹوریہ کو تحفے میں دے دیا تھا۔یعنی حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ۔اب ، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمروں ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں۔ بھارتی عوام نے موقع غنیمت جانا، اور اپنا ہیرا واپس مانگ لیا۔مگر کیمرون تو صاف مکر گئے۔کہتے ہیں، وہ ہڑپ کی ہوئی چیزیں واپس کرنے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔کوہ نور آخر آیا کہاں سے ،کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرا ، آندھرا پردیش کی کان سے نکالا گیا، کوہ نور کے بارے میں پہلا تحریری حوالہ1526 میں مغل بادشاہ بابر کی خودنوشت بابر نما میں ملتا ہے جس کے مطابق 1294 میں یہ گوالیار کے ایک راجا کے پاس تھا جو الاوٴالدین خلجی نے قبضے میں لے لیا،اس کے بعد یہ ہیرا ، تغلق، لودھی ، مغل بادشاہوں ایرانیوں اور افغان بادشاہوں سے ہوتا ہوا مہاراجا رنجیت سنگھ کی ہاتھ لگا،مارچ اٹھاسو اننچاس میں پنجاب برطانوی راج کے تحت آیا تو معاہدے میں کوہ نور کا معاملہ بھی درج کیا گیا، معاہدے میں فریق گورنر جنرل لورڈ دلہوزی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دلپ سنگھ کے ہاتھوں یہ ہیرا ملکہ وکٹوریا کی خدمت میں پہنچایا، دلپ جس کی عمر تیرہ سال تھی برطانیہ گیا اور خود ملکہ کو یہ ہیرا پیش کیا۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے دورہ بھارت کے دوران ان سے کوہ نور ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر انہوں نے صاف انکار کردیا ہے۔ تاہم یونیسکو کے ایک کنونشن کے مطابق ثقافتی اہمیت کی حامل اشیا کی واپسی ممکن ہے۔ 1954 کے ہیگ کنونشن کے مطابق کسی مسلح تنازعے کے نتیجے میں لوٹی جانے والے ثقافتی ورثے کے تحفظ کا قانون موجود ہے۔ یہ قانون دوسری جنگ عظیم میں ثقافتی اہمیت کی اشیا کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے باعث بنایا گیا تھا۔1970 میں یونیسکو نے اس قانون کو مزید بہتر بناتے ہوئے بین الحکومتی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد ثقافتی اہمیت کی اشیا کی ان کے اصل ملک واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ کمیٹی 22 ملکوں پر مبنی ہے جس کا انتخاب یونیسکو کی جنرل کانفرنس نے کیا تھا۔ اس قانون کا اطلاق زیادہ تر مغربی ملکوں پر ہوتا ہے جن پر دوسرے ملکوں کی ثقافتی اشیا چرانے کا الزام ہے۔ ان ملکوں میں انگلینڈ، جرمنی ، فرانس اور امریکا شامل ہیں۔ جنوری 2008 میں نیویارک کے میوزیم سے ڈھائی ہزار سال پرانا گلدان اٹلی کو واپس کیا گیا۔ نومبر 2010 میں جاپان کی حکومت جنوبی کوریا کے ایک ہزار فن پارے واپس کرنے پر رضامند ہوگئی۔ یہ فن پارے 1910 سے 1945 تک جاپان کے قبضے کے دوران حاصل کیے گئے تھے، مصر میں محکمہ آثار قدیمہ کے سابق سربراہ زاہی حواص نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ اشیا واپس حاصل کی ہیں اور اب وہ برطانیہ سے اپنے تاریخی پتھر روزیٹا اسٹون (rosetta stone ) اور فرانس سے (zodiac of dendera) کی واپسی کیلیے مہم چلا رہے ہیں۔