30 نومبر ، 2024
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کو خط لکھ کر چولستان کینال تعمیر نہ کرنے کی باقاعدہ درخواست کردی۔
مراد علی شاہ نے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کو لکھے گئے خط میں چولستان کینال پر شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے 11 اکتوبر 2024 کو سی ڈی ڈبلیو پی نے غیر قانونی طور پر چولستان کینال کی منظوری دی تھی، سلیمانکی ہیڈورک سے فیڈرل کینال نکالی جارہا ہے جس میں چار کینالوں کے لیے 4122 کیوسک پانی لیا جائےگا، نیو فتح کینال سسٹم ، نیو مراد کینال سسٹم ، نیو ہاکڑا کینال سسٹم اور نیو ہارون کینال سسٹم بنائی جائیں گی۔
مراد علی شاہ کے مطابق اس منصوبے سے بہاولپور اور بہاو نگر کی 6 لاکھ 10 ہزار ایکڑ زمین آباد کی جائے گی، حکومت پنجاب نے ارسا سے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ لیا تھا جس پر حکومت سندھ کے نمائندے نے اتفاق نہیں کیا، صوبہ سندھ کو پانی کی دستیابی سے متعلق ارسا کے سرٹیفکیٹ پر تحفظات ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے خط میں بتایا کہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ صوبوں میں پانی کی شدید کمی ہے، پچھلے کئی سالوں سے خریف کے موسم میں پانی کی 50 فیصد تک کمی رہی ہے، اس سے سندھ کی معیشت کو اربوں روپے کانقصان ہوا ہے، 7 فروری کو ایکنک میں وفاقی وزارت منصوبہ بندی نے نیشنل ایریگیشن نیٹ ورک کا منصوبہ پیش کیا جس میں ارسا سے این او سی لینے کی شرط رکھی گئی اور صوبوں سے رائے لینے کے لیےکہا گیا ، جس کو سی سی آئی نے منظور کرلیا ، سی سی آئی میں طے ہوا کہ ہر منصوبے پر غور ہوگا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے پہلے ہی سی سی آئی میں ان کینالوں پر اپنا کیس پیش کردیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے طور پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے رابطہ کیا تھا ، احسن اقبال سے درخواست کی کہ سی سی آئی کے فیصلے تک کینال کی منظوری نہ دیں ، سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں سندھ نے واضح طور پر اس منصوبے پر اعتراضات اٹھائے تھے ، پیرا 4 شیڈول 2 کے تحت سی سی آئی اس معاملے پر وفاقی وزارت منصوبہ بندی ، وفاقی وزارت آبی وسائل اور تین صوبوں سے کمنٹس لینے کی پابند ہے، مگر اب تک وفاقی وزارت منصوبہ بندی اور خیبرپختونخوا نے کمنٹس دیے ہیں۔
خط میں ان کا کہنا ہے کہ یہ حساس اور متنازع ایشو ہے، سندھ میں سیاسی جماعتیں ، زراعت سے وابستہ تنظیمیں اور سول سوسائٹی احتجاج کررہی ہیں، وسیع احتجاجی تحریک شروع ہوگئی ہے جس میں اس مسئلے کے حل کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ جب تک مشترکہ مفادات کی کونسل فیصلہ نہ کرے اس وقت تک یہ معاملہ ایکنک میں زیر بحث نہ لایا جائے، سی ڈی ڈبلیو پی کو بھی اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کی ہدایت کی جائے۔