11 دسمبر ، 2024
اس روز صبح کے وقت اگر مجھے خود انور مقصود صاحب آرٹس کونسل میں نظر نہ آتے تو شائد میں بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا کہ انہیں اٹھا لیا گیا ہے لہٰذا جب میرے ایک صحافی دوست نے لاہور سے مجھے تصدیق کیلئے واٹس ایپ کیا تو میرا سادہ سا جواب تھا، ’ابھی وہ میرے سامنے سے گزرے ہیں‘۔
اس شام انہوں نے اختتامی تقریب سے جو چار روزہ عالمی اردو کانفرنس کے اختتام پر منعقد ہوئی ایک وضاحت اور معذرت کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ انکے حوالے سے جو خبریں چل رہی ہیں وہ درست نہیں۔ دراصل کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں ’اٹھائے جانے‘ اور ’بٹھائے جانے‘ کی خبریں عام طور پر درست ثابت ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے انور مقصود اس ملک کا بڑا نام ہیں اور ان کے لاکھوں فالورز ہیں لہٰذا ان کے حوالے سے ہر خبر اور انکے قلم یا منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔
تاہم ’خبر‘ کا فیصلہ کہ یہ اصلی ہے یا فیک، بہتر وہی کرسکتا ہے جسے خبر کا پتا ہو۔ جس ملک کی صحافت ہی پچھلے 76 سال میں 80فیصد صرف اور صرف ’بیانات‘ کے گرد گھومتی ہو وہاں لوگ عام طور پر اصل خبر سے بے خبر ہی رہتے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی خبر 16دسمبر 1971کو بی بی سی سے ہی پتا چلی ورنہ ہمیں تو ’سب اچھا‘ کی خبریں دی جارہی تھیں۔
کچھ خبریں ہمیشہ سے ایک جیسی ہی ہوتی ہیں صرف نام اور کردار بدل جاتے ہیں مثلاً حکومت اپنی میعاد پورے کرے گی۔ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا، حکومت کی کوششوں سے مہنگائی کم ہوگئی ہے۔ صدر نے یہ کہا اور وزیراعظم نے یہ کہا۔ اب کس نے کہا یہ تو سچ ہے کیا کہا وہ سچ ہے کہ نہیں۔ اب اس میں بھی اگر کسی بات پر ردعمل سامنے آتا ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ میڈیا نے بات کو توڑ مروڑ کے پیش کیا ہے یا سیاق و سباق سے ہٹ کر۔ لہٰذا کیا فیک ہے اور کیا درست ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔
یہ معاملہ اب شدت اختیار کرتا جارہا ہے جسکی ایک بڑی وجہ تو خود سرکار ہوتی ہے جو حقائق کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے خاص طور پر ایسے واقعات کے حوالے سے جہاں کسی تصادم اور وہ بھی قانون نافذ کرنے والوں اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان ہو اور دوسرا فریق جو متاثر ہے وہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے لہٰذا اصل امتحان اس رپورٹر، کیمرہ مین اور فوٹو گرافر کا ہوتا ہے کہ سچ کو سامنے لایا جائے اور وہ بھی بنا خوف کے۔
کئی روز گزر جانے کے بعد بھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ اصل میں 26نومبر کو ’ڈی چوک‘ پر کیا ہوا تھا لہٰذا جس نے جو تاثر قائم کرنا تھا کرلیا۔ پہلے خبریں ’انفارمیشن‘ کے ذریعے کسی پریس ایڈوائس کے ذریعے ’درست‘ کروائی جاتی تھیں اب بات ’فورمیشن‘ تک آگئی ہے اور نئی قانون سازی کی جارہی ہے ’فیک نیوز‘ کو روکنے کیلئے۔ خصوصی عدالتیں بھی قائم ہونگی اور مقدمات بھی قائم ہونگے۔ یہ معاملہ جتنا سنجیدہ ہے اتنا شائد ہمیں اب تک ادراک نہیں۔ یہ سوچ نئی نہیں کہ ’فیک نیوز‘ کے نام پر میڈیا کو کس طرح قابو کیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض معاملات میں تمام میڈیا اسٹیک ہولڈرز کو کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا جس کی ابتدا اخبارات اور نیوز چینل میں بااختیار پروفیشنل مدیران اور نیوز ایڈیٹر یا نیوز سیڈ سے کی جاسکتی ہے۔ حکومت یا سرکار خود ایک پارٹی ہوتی ہے خبروں کے معاملات میں لہٰذا عام طور پر کوئی بھی قانون سازی میں وہ خود اس سے بچ کر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا فیصلہ ایک ’میڈیا شکایت کمیشن‘ کرسکتا ہے کہ کونسی خبر درست ہے اور کونسی فیک۔ اس سلسلے میں ایک غیرجانبدار کمیشن جو ایسے افراد پر مشتمل ہو جو غیرجانبدار ہوں اور معاشرےمیں اچھی شہرت رکھتے ہوں چاہے انکا تعلق سول سوسائٹی سے ہو یا عدلیہ سے جبکہ میڈیا سے لئے گئے افراد اقلیت میں ہوں تاکہ میڈیا پر جانبداری کا تاثر نہ ابھرے۔
’فیک نیوز‘ کہیں سے بھی آسکتی ہے اور کوئی بھی پھیلا سکتا ہے جس میں ایک عام آدمی بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت یا فرد بھی اور خود سرکار بھی۔ لہٰذا اسکو کسی بھی عدالت میں لے جانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ صحافتی پیشہ ورانہ تقاضوں کے تحت جائزہ لے کر اس خبر کو ’فیک‘ یا ’درست‘ قرار دیا جائے جو کام کمیشن کا ہو۔ اس میں معذرت، وضاحت اور معافی یا اپنی خبر پر کھڑے رہنے کی گنجائش موجود ہو۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں آج کے دور میں ’ڈیجیٹل میڈیا‘ کو فیک نیوز کا بڑا ذریعہ قرار دیا جارہا ہے، جسکی اصل وجہ اسکے ہر طرح کے فالورز بھی ہیں اور وہ لوگ بھی جنہوں نے اس میڈیم کو کمائی کا ایک مؤثر ذریعہ بنالیا ہے مگر اسکا توڑ جبر سے نہیں ہوسکتا نہ ہی غیرضروری پابندیوں سے۔
یہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہر وہ انسان استعمال کررہا ہے جسکے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور وہ اس کا استعمال بھی جانتا ہے۔ محض قانون سازی کرکے، کسی بھی وفاقی ایجنسی یا ایجنسیوں کے ذریعہ آپ ’ڈس انفارمیشن‘ کو نہیں روک پائیں گے۔ جس معاشرے میں سیاسی، لسانی، فرقہ وارانہ اور ثقافتی تقسیم ہو ۔جہاں حکومتوں، ریاست اور اداروں سے اعتماد اٹھ جائے وہاں یہ انتہائی ضروری ہے کہ منفی ؟؟ اور ’فیک نیوز‘ کو معاشرہ مسترد کرے جس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو ’حقائق‘ بتائے جائیں حکومت جھوٹ نہ بولے۔
کچھ عرصہ پہلے معروف اینکر طلعت حسین صاحب کا ایک ویڈیو کلپ کہیں سے کہیں جوڑ کر وائرل کردیا گیا، 26نومبر ڈی چوک کے حوالے سے اور ان سے بات منسوب کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ اس کلپ کا تعلق پارہ چنار میں ہونے والے واقعات سے تھا۔ اب یہ سب فائروال روک پائیگی؟۔ انٹرنیٹ کی بندش یا واٹس ایپ کو سلو کرنے اور 'X' کو 'VPN' کا پابند کرنے سے آپ لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو مزید بیروزگاری کی طرف دھکیل رہے ہیں جس سے معاشرہ میں مزید بگاڑ آئیگا۔
اگر سرکار نے ’فیک نیوز‘ کو صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کے ہی تناظر میں دیکھ کر قانون سازی کرنی ہے اور میڈیا کو قابو کرنا ہے تو آپ کبھی فیک نیوز کو پھیلنے سے نہیں روک پائیں گے۔ کیونکہ ایک فیک نیوز کا توڑ دوسری فیک نیوز نہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے 26نومبر کے حوالے سے اعدادوشمار درست نہیں تو سچ شائد حکومت بھی چھپا رہی ہے۔
جائزہ لیں اپنی تاریخ کا تو ہر دور میں حقائق کو چھپانے کے اپنے طریقے رہے ہیں۔ ایوب خان نے کئی اخبارات جو آزاد رائے رکھتے تھے قابو میں کرلیا۔ جنرل ضیاء یا ضیا دور میں خبروں کو اپنی چھڑی سے اکھاڑ پھینکنے کی روایت پڑی، مشرف دور میں کنٹرول لب آزاد ہوئے اسکرین کے ذریعے پھر وہ آوازیں بھی بند کردی گئیں۔ اب یا لوگ اٹھا لئے جاتے ہیں یابٹھا دیے جاتے ہیں ورنہ ’آئس‘ ڈال دی جاتی ہے پہلے آئس یا برف پر لٹا دیا جاتا تھا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔