15 دسمبر ، 2024
جیو نیوز کی پاور سیکٹر سے متعلق مسائل اور ان کے حل کی تجاویز کیلئے خصوصی نشریات ’آخری موقع‘ میں ماہرین نے گفتگو کی۔
سابق نگراں وزیر گوہراعجاز کا کہنا تھاکہ کیپیسٹی ادائیگی 2 لاکھ کروڑ روپے سالانہ دے رہے ہیں، پچھلےسے سالانہ اوسطاً 12 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال ہوئی ہے، وزیرخزانہ نے کہا نقصانات سبسڈی کے بجائے صارفین سے وصول کریں گے، اس کا مطلب ہے جو بجلی نہیں بن رہی اس کے پیسے صارفین نے دینے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیوکلیئرانرجی سے بجلی 86 فیصد آرہی ہے، بڑی آسانی سےکہتے ہیں 100 ارب روپےصارفین سے لیں گے تو کیا فرق پڑتاہے، کئی آئی پی پیز کو 32، 32 سو کروڑ روپے دے رہے تھے جو چلتےہی نہیں تھے، آئی پی پیز بند ہونے سے 6 ہزار ارب روپے کی بچت ہوئی، ابھی جوآئی پی پی چل رہے ہیں انہیں کہا گیاہےکہ جوبجلی بنائیں گےاس کے پیسےملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ روپے قوم بند پلانٹس کو دےرہی تھی، اب کوئلے کے پلانٹ ہمارے گلے پڑے ہیں جو 10 فیصد بجلی بھی پیدا نہیں کرتے، حکومت کا کام کاروبار نہیں ، معاشی بحران ، صنعتوں کی تباہی اور غریب عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ یہ سب غلط معاہدوں کی وجہ سے ہے ، ہم 43 ہزار میگاواٹ بجلی بنارہےہیں پچھلے سال 12 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال ہوئی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور محمد علی کا کہنا تھاکہ آئی پی پیز کو قرض لے کرپلانٹ لگانےکی اجازت نہیں تھی، آئی پی پیز میں بہت سے غلط کام ہوئے، آئی پی پیز نے معاہدے کی شرائط پوری نہیں کیں، میں نےکہا تھا کہ معاملہ مصالحت کاری میں نہیں جانا چاہیے لیکن آئی پی پیز کا معاملہ مصالحت کاری میں چلاگیا اور 4 سال وہیں پڑا رہا۔
انہوں نے کہاکہ چارسال سے مصالحت کاری نہیں ہوئی، ہم اس معاملےکو حل کررہےہیں، جتنی زائد ادائیگی ہوئی اسے ریکور کر رہے ہیں، آئی پی پیز نے پیسےاسٹاک ایکسچینج میں لگائے،اربوں روپےکمائے، نیپرا نے آڈٹ کرنے کی بات کی تو اسے کیوں نہیں کرنے دیا گیا؟ نیپرا کو آڈٹ کرنے نہیں دیا اور آئی پی پیز نے اسٹے آرڈر لیا۔
ان کا کہنا تھاکہ ابھی 18 پلانٹس سے بات کررہےہیں، اس سے 800 ارب روپےکا فائدہ ہوگا، ایک طرف آئی پی پیز کےمالکان ہیں اور دوسری طرف عوام ہیں، پاکستان میں بہت جےآئی ٹیز بنیں، لوگ اندر ہوئےاور باہرآگئے، دیوانی مقدمےنہیں بناسکتے کیونکہ ہمارے ادارے بہت کمزور ہیں۔
معاون خصوصی کا کہنا تھاکہ بجلی مہنگی ہونےکی دو تین وجوہات ہیں، ایک آئی پی پیز اور دوسری وجہ ٹیکسز ہیں، بجلی صارفین پرٹیکسز کم کریں گے تو کہیں اور سے وصولی کرنی ہوگی، بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ 8روپے فی یونٹ ٹیکس بھی ہے ، کوشش ہے ٹیکس 3 روپے تک لائیں، پاور کے سرکولرڈیٹ پرکام کررہےہیں، اس کا حل نکالیں گے۔
سابق چیئرمین اپٹما آصف انعام نے کہا کہ انڈسٹری ٹھپ ہونے کی وجہ یہی ہےکہ سب کچھ انرجی سیکٹر لے جاتا ہے، سرکاری گودام سے گندم کی چوری یا تیل کی چوری ایک ہی ہے، اسے بھی گندم چوری والے معاملے کی طرح ڈیل کیا جانا چاہیے۔
جیونیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں حبکو کے سابق سی ای او خالد منصور کا کہنا تھاکہ آئی پی پیز نے کبھی فارنزک آڈٹ سے انکار نہیں کیا، حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ جو آپ کرنے جارہے ہیں اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ آپ عوام کو کتنا ریلیف دے سکیں گے۔
سی ای او لکی پاور روحیل محمد نے کہا جو آئی پی پیز غلط کام کررہی ہیں، ان کا فارنزک ضرور ہونا چاہیے، کہا جا رہا ہے اوور انوائسنگ ہوئی تو اسے حکومت کو روکنا چاہیے، معاہدے میں ایسا مکینزم موجود ہے۔
ماہر معاشیات عمار حبیب کا کہنا تھاکہ اضافی بجلی کی نیلامی کردیں، کہیں صنعت لگائیں اور انہیں کم قیمت بجلی دیں، کوئلے سے بجلی کی پیداواری لاگت 14 سے 16 روپے ہے، انڈسٹری کو 100میگاواٹ بجلی ایک فکس قیمت پر دیں۔