19 دسمبر ، 2024
امریکی سپریم کورٹ نے ٹک ٹاک کی جانب سے ایپ پر پابندی عائد کرنے والے قانون کے خلاف دائر درخواست سننے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
امریکا کی اعلیٰ ترین عدالت نے کمپنی کی جانب سے درخواست دائر کیے جانے کے محض 2 دن بعد اس مقدمے کو سننے کا فیصلہ کیا۔
امریکی سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت 10 جنوری کو ہوگی۔
ٹک ٹاک کی جانب سے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کو عارضی طور پر روک دیا جائے۔
خیال رہے کہ اس امریکی قانون کے تحت ٹک ٹاک کو 19 جنوری تک امریکا میں کمپنی کو فروخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس مدت میں کمپنی کو فروخت نہ کرنے پر امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
اس قانون کا اطلاق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ صدارت سنبھالنے سے ایک دن قبل ہوگا۔
سوشل میڈیا کمپنی کا مؤقف ہے کہ یہ قانون غیر آئینی ہے اور اس نے امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے۔
مگر 6 دسمبر کو یو ایس کورٹ آف اپیلز کے 3 ججوں پر مشتمل پینل نے ٹک ٹاک کی قانون کو غیرآئینی قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد ٹک ٹاک کی جانب سے ایک بار پھر اسی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے قانون پر عملدرآمد عارضی طور پر روکنے کی درخواست کی تھی۔
مگر 13 دسمبر کو کورٹ آف ایپلز نے ٹک ٹاک کی اس درخواست کو بھی مسترد کردیا۔
اگر سپریم کورٹ نے قانون پر عملدرآمد عارضی طور پر روکنے کی درخواست مسترد کی تو 19 جنوری کو امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہو جائے گی۔
اس صورت میں ٹک ٹاک کی قسمت کا فیصلہ موجودہ صدر جو بائیڈن کے ہاتھوں میں ہوگا جو 19 جنوری کی ڈیڈلائن میں 90 دن کا اضافہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تاکہ ویڈیو شیئرنگ ایپ کی فروخت کا معاملہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ طے کرسکیں۔