23 دسمبر ، 2024
دسمبر اور شاعری کا ایک اپنا تعلق ہے، ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ باقی لوگ بھی دسمبر میں شاعرانہ انداز اختیار کرلیتے ہیں اور اس سال تو دسمبر میں ہر خاص و عام کے لئے ایک منفرد تحفہ موجود ہے۔
پرانی اور نئی نسل میں یکساں مقبول شاعر جون ایلیا کا نیا شعری مجموعہ "کیوں" شائع ہوگیا ہے، مرتب خالد احمد انصاری کا جون زدگان کے لئے اس خوب صورت کتاب کا تحفہ کسی نعمت سے کم نہیں۔
جون ایلیا کا آخری شعری مجموعہ سنہ 2008 میں شائع ہوا، اس حساب سے 16 سال بعد جون ایلیا کا نیا شعری مجموعہ ہمارے ہاتھ آیا ہے، درمیان میں خالد احمد انصاری نے جون صاحب کی دیگر 3 کتابیں مرتب کرکے شائع کروائیں، یقین کریں خالد احمد انصاری نے جون ایلیا سے ایسی وفا نبھائی ہے جسے دیکھ کے اور محسوس کرکے وہ خوشی حاصل ہوتی ہے جو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، اس تعلق اور محبت نے اردو ادب پر بڑا احسان کیا ہے۔
جون ایلیا اور خالد احمد انصاری کے تعلق پر کم از کم ایک کتاب ضرور لکھنی چاہیے، ہوسکتا ہے مستقبل میں یہ فریضہ ہم ہی ادا کردیں، کیونکہ خالد بھائی سے ہمارا ایک قریبی تعلق ہے، وہ کم گو انسان ہیں، شور شرابے اور محفلوں سے اکتائے رہنے والے شہرت و ستائش سے دور اپنی دھن میں مگن، شخصیت اتنی پرکشش کہ آپ ان کے کہے چار جملوں پر چار گھنٹے سوچ سکتے ہیں اور آخر وہ سب سے الگ تھلگ کیوں نہ ہوں، جون ایلیا کے سنگتی جو ہیں۔
خالد احمد انصاری کے بارے میں مزید بھی کچھ باتیں کریں گے لیکن پہلے آپ کو جون صاحب کی نئی کتاب "کیوں" سے ملواتے ہیں۔
ہم پلٹ آئے آپ میں افسوس۔۔۔۔
ورنہ اُس رہ گزر میں کیا کچھ تھا
جون ایلیا شاعر فلسفی ادیب وغیرہ تو تھے ہی، ساتھ وہ انسانی رشتوں اور تعلقات پر ایک مستند حوالہ بھی ہیں، جون کی شاعری میں انسان کا انسان سے تعلق بڑے واضح انداز میں موجود ہے۔ اور ہر رنگ میں موجود ہے۔
جانے احساس ہے تمہیں کہ نہیں
تم ذرا بھی نہیں رہی ہو تم
سُن رہی ہو؟ مجھے بتاؤ تو
جا رہی ہو کہ جا چکی ہوتم
یہ جون ہی ہیں جسے نئی نسل نے کئی القاب سے نوازا، کوئی انہیں جون اولیا کہتا ہے، کوئی مرشد جون، تو کوئی جون جانی اور ان سب میں لوگوں کی جون سے بے پناہ محبت و عقیدت چھپی ہے، سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ایرا غیرا کانٹینٹ بھی لاکھوں کی تعداد میں شیئر ہوتا ہے، وہیں جون شناس علم و فکر سے بھرپور کلامِ جون بھی لاتعداد بار شیئر کررہے ہوتے ہیں۔
جون تو 22 سال پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، جون نے نہ فیس بک دیکھا نہ یوٹیوب نہ انسٹاگرام نہ ہی ٹک ٹاک لیکن جون آج ہوتے تو دیکھ کر حیران نہ ہوتے کہ وہ سوشل میڈیا پر کس قدر مقبول ہیں، ان کی پرانی ویڈیوز پر نئے نئے میوزک اور فلٹرز کے ساتھ فنکاریاں یقیناً جون کو بھی پسند آتیں، جون ہوتے تو اپنے مداحوں کو واٹس ایپ پر ایک ایک کرکے جواب ضرور دے رہے ہوتے، کبھی کسی میسیج پر چِڑ جاتے تو کہتے، یار خالد، یہ کیسے کیسے نمونے تیرے میرے درمیان موجود ہیں اور پھر زوردار قہقہہ لگاتے اور اچانک سے دوبارہ میسجز میں کھو جاتے۔
میری جون ایلیا سے جو چند ملاقاتیں رہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ہیں، ان سنگتوں میں میرا کردار مشاہداتی رہا، کبھی موقع ملا تو اس بارے میں بھی کچھ لکھوں گا۔
خالد احمد انصاری کے پاس جون بھائی کی یادوں کا ایک خزانہ ہے، لازمی بات ہے دیگر لوگ بھی جون ایلیا کے ساتھ اٹھے بیٹھے ہوں گے لیکن جو تعلق خالد انصاری کا جون ایلیا سے رہا وہ اپنی مثال آپ ہے، میں نے اپنی ان خوش قسمت آنکھوں سے خالد بھائی کے پاس جون ایلیا کے کاغذات کا خزانہ دیکھا ہے۔ وہ ڈائریاں وہ صفحے، اور ان میں ہر طرف بکھرے جون ایلیا کے نقش، انہیں جس ایمانداری سے خالد احمد انصاری نے جمع کیا اور دنیا کے سامنے پیش کیا اس پر خالد بھائی کو جتنے اعزازات سے نوازا جائے کم ہے، آج کی دنیا میں ایسے بے لوث تعلقات کی جھلک بھی دِکھ جانا زندگی میں تر و تازگی پیدا کردیتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ خالد بھائی اور ہماری دوستی کی سب سے بڑی وجہ جون ایلیا ہیں، ہماری محفلوں میں ایک کرسی ہمیشہ بھائی جون کے لئے خالی رہتی ہے، کبھی کبھی لگتا ہے وہ ساتھ بیٹھے ہماری باتیں سن رہے ہیں۔ اور ہنستے ہوئے کہہ رہے ہیں "خالد۔۔۔ تُو ان سب کے درمیان زندہ ہے یہ بڑا کارنامہ ہے۔"
گم شدہ سی اُمنگ ہے مرے ساتھ
تیرے لہجے کا رنگ ہے مرے ساتھ
"کیوں" میں جون ایلیا کی غزلیں ہیں، نظمیں ہیں، قوالیاں ہیں، منظوم خطوط اور قطعات ہیں، یہ سب پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم جون ایلیا سے دوبارہ ملاقات کررہے ہیں، خالد بھائی کہتے ہیں جون بالکل وہی شخصیت ہیں جیسی ان کی شاعری ہے۔
تمہیں خوشبو کی کیا ضرورت ہے
جان ! اتنی مہک رہی تو ہو !
کریں جس درد کا گِلہ اُس سے
دل میں اس کی کسک رہی تو ہو
نوجوان نسل میں جون کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کے اشعار کا سیدھا وار ہے، یعنی گھما پھرا کر بات کہنے کے بجائے جون شاعری میں بھی سیدھی بات کرتے ہیں۔
جس سے جھوٹی لڑائی رہتی تھی
اُس سے سچ مچ لڑائی کی جائے
وہ جو تاریخ کا ہے چوراہا
واں تمہاری پٹائی کی جائے
گز شتہ دنوں کراچی کے علاقے کلفٹن میں موجود زیبسٹ یونیورسٹی میں جون ایلیا کے نام ایک شام سجائی گئی، انور شعور کی صدارت میں کئی نامور شعراء نے جون ایلیا کو خراجِ عقیدت پیش کیا، فاطمہ حسن صاحبہ نے وہ کلام بھی پڑھ کر سنایا جو وہ جون ایلیا کی زندگی میں ان کی موجودگی میں پڑھ چکی تھیں، نئی نسل کے مقبول شاعر عمیر نجمی سے محفل کے بعد گفتگو رہی، جون ایلیا سے ان کی عقیدت جان کر دل باغ باغ ہوگیا، وہ جون ایلیا کی بے انتہا مقبولیت کے معترف نظر آئے اور جون کی رائیگانی اور ملال پر عمدہ کلام کرتے رہے، ہماری جون کے مخالفین پر بھی مختصر گفتگو رہی ، ہم اس پر متفق رہے کہ کچھ لوگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، ہماری گفتگو کا حاصل جون کا یہ اپنا شعر ہے۔
ہم شاعروں میں کس کو نظر آرہا ہے جون
ہے سارے طائفے کی بصارت بہت خراب
"کیوں" جون کی شاعری کی آخری کتاب ہے اور اب خالد احمد انصاری کے ذمے جون ایلیا کی کلیات مرتب کرنا ہے جس کا نام انہوں نے"کُن" رکھا ہے اس میں تمام مجموعوں کے علاؤہ جون کی باقیات بھی شامل ہوں گی۔
ڈیجیٹل میڈٰیا کے دور میں جون ہر طرف چھائے ہوئے ہیں، ادبی فورمز، سوشل میڈٰیا پیجز، واٹس ایپ گروپس ہر جگہ جون نمایاں ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جون اب دنیا میں کئی روپ میں زندہ ہیں۔ لیکن جون کا سب سے خالص چہرہ خالد احمد انصاری ہیں۔
مجھ سمیت جون کے کروڑوں چاہنے والوں کو "کیوں" کی لذت پہنچانے پر خالد بھائی کا بے حد شکریہ۔ ہم "کن" کے منتظر رہیں گے اور ایلیائی نعرہ بلند کرتے رہیں گے۔ آخر میں جون صاحب کی غزل کے چند اشعار کا لطف لیجیے۔
جانے کیا امتحان باقی ہے
بے سخن ہوں، زبان باقی ہے
اس زمیں پر بتاؤ کیا نہ ہوا
اور۔۔۔ یہ آسمان باقی ہے
میرے بارے میں اُس سے کہیو صبا
جسم میں صرف جان باقی ہے
جَل گیا باغِ سبزِ جاں کب کا
سنتے ہیں باغبان باقی ہے
میۤر کے خاندانِ معنی کا
جوۤن ہی اک جوان باقی ہے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔