بلاگ

بی بی شہید کا نظریہ مفاہمت

پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاسی رہنماؤں، کارکنان اور گمنام ہیروز کی جانب سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے جدوجہد اور قربانیوں کی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

 آزادی سے قبل اور آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی، مقبول رہنماؤں کو اکثر نا معلوم قوتوں نے نشانہ بنایا تاکہ عوام کے حقوق اور خود مختاری کی آواز کو خاموش کیا جا سکے۔ ان عظیم شخصیات میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی شامل ہیں، جو نہ صرف پاکستانی بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں اور پاکستان کی سب سے بااثر سیاسی شخصیات میں سے ایک تھیں، انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

27 دسمبر کی سرد ہوائیں ایک غیر متوقع اور گہری اداسی لے آئیں، جس نے سیاسی اور جمہوری خلا کو مزید گہرا کر دیا، اس دن، راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے دوران ، بینظیر بھٹو کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد پاکستان کے عوام گہرے غم اور غیر یقینی صور تحال میں مبتلا ہو گئے۔

17سال قبل، ہم نے ایک عالمی رہنما کھو دیا۔ تاہم، ان کا سیاسی فلسفہ آج بھی ہمارے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آج بھی پاکستان کے وفاق کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اپنی زندگی میں انہوں نے مشکلات کا سامنا کیا لیکن ان کی مقصد سے وابستگی غیر متزلزل رہی۔ 

انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت سنبھالی جب آزادیوں کو محدود کر دیا گیا تھا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام تھیں اور آزادی اظہار کو غیر جمہوری قوتوں نے کچل دیا تھا۔ آمر حکومتوں نے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے پاکستانی عوام کی امیدوں کو زندہ رکھا اور جمہوریت اور شراکتی وفاقیت کے نظریات کو فروغ دیا۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت نے، صبر، جرات اور برداشت کے ساتھ، ظلم و ستم کی زنجیریں توڑنے کے ان کے عزم کو مضبوط کیا۔

مجھے ان کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں’’مشکلات کا سامنا کرنے میں جرات اور وقار ایک عظیم رہنما کی پہچان ہیں۔‘‘ وہ ایک عظیم رہنما تھیں اوراپنی زندگی میں انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا۔ ان کا فلسفہ آج بھی ہمیں اور بہت سے دوسروں کو مشکلات کا مقابلہ کرنے اور سمجھوتہ نہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی جرات کو بھی دیکھا جب انہوں نے ایک مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے کا انتخاب کیا اور شہادت کو قبول کیا۔ انہوں نے اپنے دو عزیز بھائیوں کی موت کا بھی غم برداشت کیا۔

شدت پسندوں اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ان کی زندگی کو مسلسل خطرات کا سامنا رہا۔ انہوں نے جلا وطنی اور قید کا سامنا کیا، لیکن ان کا عزم چٹان کی مانند مضبوط رہا۔ اپنی ثابت قدمی اور کردار کے ذریعے انہوں نے عوام کے دل جیت لیے۔ تاریخ کے صفحات میں انہیں امید کی کرن، ایک رہنما اور جمہوریت کی علمبر دار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کرنا ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا۔

یہ ان کا وژن اور رہنمائی تھی جس کی بدولت ہم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا۔ جو پاکستان کے غریب طبقات کی مدد کے لیے ایک نمایاں قدم ہے۔ آج یہ پروگرام ملک بھر میں اپنی رسائی رکھتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی مختلف طریقوں سے مدد کر رہا ہے۔

جمہوری اقدار کی حامی ہونے کے ناطے، انہوں نے جمہوریت کی بحالی کی کوششوں کی قیادت کی، جو بعد میں سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی شکل میں سامنے آئیں۔ انہوں نے نظام کو دوبارہ درست راہ پر لانے کے لیے بات چیت کی بنیاد رکھی، کیونکہ غیر جمہوری حکومتوں کے جمہوریت مخالف اقدامات نے جمہوری روح کو نقصان پہنچایا تھا اور عوام اور ان کے نمائندوں کے درمیان ایک خلا پیدا کر دیا تھا۔

میثاق جمہوریت نے حقیقی معنوں میں جمہوریت اور پارلیمان کی عظمت کو بحال کیا۔ 1973ءکا آئین اپنی اصل شکل میں بحال کیا گیا، جس سے پارلیمانی جمہوریت کو فروغ حاصل ہوا۔ صوبوں کو فیصلہ سازی کے لیے مزید اختیارات دیے گئے، این ایف سی ایوارڈ کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی گئی، 18ویں آئینی ترمیم، جی بی ایکٹ، آغاز حقوق بلوچستان اقدام اور دیگر کئی اقدامات سیاسی قوتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کی تاریخی مفاہمت کے ثمرات ہیں۔

آج ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ ملک سیاسی غیر یقینی کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ معاشی استحکام ایک بڑا چیلنج ہے۔ سیاسی خلا ایک بار پھر بہت وسیع اور گہرا ہو چکا ہے۔ ہمیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ہم آہنگی اور مفاہمت کے نظریے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی سیاسی قوتوں کو آپس میں بات چیت کرنی چاہیے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سیاسی اور معاشی ترقی کے ایجنڈے کو اجتماعی طور پر آگے بڑھایا جاسکے۔

آئیے ملک کی ترقی کے لیے ہاتھ ملا لیں۔ آئیے ایک ساتھ کام کریں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے ، اور بر داشت، مفاہمت، اور باہمی احترام کو فروغ دیا جا سکے۔

(صاحبِ تحریر سابق وزیراعظم پاکستان اور سینیٹ کے موجودہ چیئرمین ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔