بلاگ

بلاول اور مریم کے لئے موقع

دنیا کے مہذب ممالک میں جمہوریت اور سیاست ملکر ایک منظم نظام کی بنیاد رکھتے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست ایک دوسرے کا احترام کر لیں تو کوئی طاقت انہیں نیچا نہیں دکھا سکتی۔ بڑے جمہوری ممالک میں سیاستدان اسی لئے عزت اور توقیر رکھتے ہیں کہ وہاں سیاست اقتدار کیلئے نہیں بلکہ جمہوریت کیلئے کی جاتی ہے۔ 

دنیا بھر کے مہذب ممالک میں سیاسی مسائل پر جماعتیں مل کر بیٹھتی ہیں اور ان کا حل نکالتی ہیں کسی دوسری یا تیسری قوت کے اشارے کا انتظار نہیں کرتیں۔ مہذب جمہوری معاشروں میں آئین سے ماورا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی ریاستی ادارے کو آئین توڑنے کی جرات نہیں ہوتی، وہاں پر اس بات کا تصور بھی نہیں ہوتا کہ کسی سیاسی جماعت کی پشت پر کسی غیبی طاقت کا ہاتھ ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ تو ہر ملک کا اہم حصہ ہوتی ہے مگر وہ سیاست کی کمزوریوں کا فائدہ نہیں اٹھاتی۔

سیاستدان ان سے ڈکٹیشن نہیں لیتے، اب اگر سیاست اخلاقیات سے محروم ہو جائے تو اسکی بے بسی کے مناظر بھی عوام سرعام دیکھتے ہیں۔ پاکستان جو ووٹ اور سیاست کی طاقت سے وجود میں آیا تھا وہاں پر اب سیاسی سرگرمیاں تقریباً معدوم ہو چکی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ نون جو ماضی کی ایک بڑی جماعت تھی، اس کے سربراہ وزیراعظم ہاؤس میں ایک قیدی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ملک کے سب سے اہم اور بڑے دستوری منصب پر فائز ہیں لیکن وہ ایوان صدر میں مقید ہیں۔ ہر سال محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر ایک محتاط سی تقریر کرتے ہیں۔

 ماضی قریب میں ایک ’’غیر محتاط‘‘ تقریر کی وجہ سے انہیں اسکا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا تھا لہٰذا وہ بڑی احتیاط سے ’’کھی پڑھی‘‘ گفتگو کرنے پر آگئے ہیں۔میاں نواز شریف ایک عرصہ سے خاموش ہیں نہ تو وہ کسی سے ملتے ہیں اور نہ ہی کسی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے مقبول اور بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اڈیالہ جیل میں گرفتار ہیں۔ ان کی جماعت اس وقت ایک بڑے سیاسی المیہ سے گزر رہی ہے۔ نو مئی کے واقعات پر سینکڑوں لوگوں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ جبکہ ڈی چوک کے واقعہ کے حوالے سے کئی لوگ گرفتار ہیں جنکی حتمی تعداد کسی کے پاس موجود نہیں۔ اس لئے صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو عملی طور پر سیاست کا میدان بالکل خالی ہے۔ جماعتیں مہربہ لب ہیں، کارکنان پر سکوت مرگ کی کیفیت ہے، سیاسی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی صوبائی ضلعی تحصیل اور سٹی کی تنظیمیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور یہی صورتحال ملک اور ملکی نظام کیلئے از حد نقصان دہ ہے۔

میری دانست میں اس وقت دو نوجوان سیاستدان جو اس وقت کسی نہ کسی شکل میں سیاست کے مرکزی دھارے کا حصہ ہیں، انکے پاس کام کرنے کے وسیع مواقع موجود ہیں ان کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ مستقبل کی سیاست میں اپنی گنجائش پیدا کریں۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان مقبولیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں لیکن بقول استاد محترم سہیل وڑائچ ’انکے پاس مقبولیت تو بہت ہے لیکن قبولیت سے محروم ہیں‘۔ 

اس صورتحال میں اگر بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری کے سائے سے نکل کر اپنے نانا اور اپنی والدہ کی طرح سیاست کریں تو وہ ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انکے بیانات اور محترمہ کی برسی پر انکی تقریر انتہائی مایوس کن تھی لیکن ماضی میں پارلیمنٹ میں انکی بعض تقاریر اتنی شاندار تھیں جن سے انکی سیاسی تربیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک ایسی ماں کے بیٹے ہیں جنہوں نے اپنے والد کو پھانسی پہ چڑھتے دیکھا،اپنی جماعت کا زوال دیکھا، جلا وطنی کاٹی اور پھر عوامی مقبولیت کے ذریعے مشروط اقتدار حاصل کیا۔ انکا جمہوریت پر ایمان اتنا مضبوط تھا کہ انہوں نے بدترین حالات میں بھی جمہوریت،ووٹ اور سیاست کی طاقت سے ہی اپنی جماعت کو مقبول کیا۔

 بلاشبہ وہ چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں۔ اگر آج بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کے بجائے اپنے نانا اور اپنی ماں کی سیاسی فکر کو لیکر چلیں تو شاید ملکی سیاست میں وہ کوئی تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ دوسری اہم اور نوجوان لیڈر محترمہ مریم نواز ہیں انکے والد میاں نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ پر کرنے کیلئے سیاسی میدان میں اتارا گیا تھا۔ وہ ایک غیر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن مقتدرہ نے ان کیلئے ایسی سہولت کاری کی کہ وہ بتدریج ملک کے مقبول ترین رہنما بن کر ابھرے۔

 بار بار ایوان وزیراعظم میں داخل ہوئے اور نکالے گئے۔طویل عرصہ انہوں نے عوام کے دلوں پر حکمرانی کی لیکن پھر بدترین طرز حکمرانی اور ڈیڑھ سالہ پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد ان کی آنکھوں کے سامنے ہی انکی جماعت سلو موشن میں دم توڑ گئی۔محترمہ مریم نواز اگر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عوامی سیاست کی طرف توجہ دیں، اپنے کارکنان سے براہ راست میل جول رکھیں،انتظامیہ کی بجائے سیاسی لوگوں پر اعتماد اور بھروسہ کریں تو وہ بھی ملکی سیاست میں حقیقی جگہ بنا سکتی ہیں۔موجودہ 'جمہوریت میں وہ غیر سیاسی ہوگئی ہیں تاہم اگر وہ عوام میں جا کر سیاسی سرگرمیاں شروع کریں تو سیاست میں ایک مثبت اضافہ ہو سکتا ہے۔لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ عمران خان کی موجودگی میں کسی اور سیاستدان کا چراغ جلنا بے حد مشکل ہے۔ لیکن ملکی سیاست کے لیے ضروری ہے کہ بلاول بھٹو اور محترمہ مریم نواز سیاسی کردار ادا کریں۔سیاست ہوگی تو ملک میں استحکام آئے گا سیاست مضبوط ہوگی تو جمہوریت مضبوط ہوگی سیاست کمزور ہوگی تو ملک کمزور ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔