03 فروری ، 2025
چین نے ایک اور خلائی سنگ میل اپنے نام کرلیا ہے۔
زمین کے نچلے مدار پر موجود چینی خلائی اسٹیشن تیانگونگ میں خلا بازوں نے ایک نئے منفرد طریقے سے راکٹ ایندھن تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس طریقے کو آرٹی فیشل photosynthesis کا نام دیا گیا ہے جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو semiconductor کی مدد سے آکسیجن اور ethylene میں تبدیل کیا جاتا ہے، یہ دونوں ہی راکٹ ایندھن کے لیے اہم اجزا ہیں۔
شینزو 19 مشن میں شامل خلا بازوں نے اس منفرد تکنیک کو خلائی اسٹیشن میں آزمایا۔
اس سے نہ صرف ایندھن کو تیار کیا گیا بلکہ آکسیجن کا حصول بھی ممکن ہوا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ گیس خلا میں مستحکم زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ تکنیک بنیادی طور پر زمینی پودوں کے طریقہ کار جیسی ہے۔
پودے بھی سورج کی روشنی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو آکسیجن اور دیگر ضروری اجزا میں تبدیل کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس نئے طریقہ کار سے توانائی کی زیادہ بچت کرنے میں مدد ملے گی اور مودہ طریقہ کار کی ضرورت نہیں رہے گی جس میں پانی کو بجلی استعمال کرکے آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
موجودہ طریقہ کار کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طویل المعیاد خلائی مشنز کے لیے زیادہ مثالی نہیں۔
رپورٹ میں چینی خلائی بازوں کے تجربے کی تفصیلات پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔
اگر یہ نئی ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کے لیے قابل ہوئی تو اس سے خلائی مشنز میں انسانوں کو بہت زیادہ مدد ملے گی کیونکہ آکسیجن اور ایندھن کا حصول آسان ہو جائے گا۔
چین کی جانب سے چاند کے جنوبی قطب میں 2035 تک ایک بیس اسٹیشن تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کو اس نئی ٹیکنالوجی سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔
اس سے ہٹ کر مریخ یا اس سے بھی آگے کے مشنز میں یہ ٹیکنالوجی آکیسجن اور ایندھن کے حصول کو ممکن بنائے گی۔