Time 12 فروری ، 2025
بلاگ

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا؟؟؟

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقہِ زنجیر میں زباں میں نے

یہ 10 ؍مئی 1978ء کا حکم نامہ ہے جو اُس وقت کے ہوم سیکرٹری جناب کنور ادریس نے بحکم گورنر سندھ، جناب منہاج برنا جو اُس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے کی ’’زباں بندی‘‘ کا جاری کیا۔ ’’ہر گاہ کہ حکومت سندھ اس رائے کی حامل ہے کہ منہاج برنا کو ایسے انداز میں عمل کرنے سے روکا جائے جو تحفظِ امن ِعامہ کیلئے ضروری ہے اور اُن کے رویے کو پابند کیا جائے لہٰذا امنِ عامہ آرڈیننس مجریہ 1940ء کی دفعہ 5ذیلی دفعہ (ڈی) کے تحت اُن کو ہدایت دیتے ہوئے حکومت خوش ہے کہ ایک ماہ کیلئے وہ اپنے خیالات یا کوئی اخباری بیان جاری نہیں کر سکتے یا انٹرویو نہیں دے سکتے جس کا تعلق حکومت اور اخبارات کے تعلقات یا اخباری قوانین کے بارے میں ہو‘‘۔

برنا صاحب کا جنوری 2012ء میں انتقال ہوا مگر اُن کی ’’ہسٹری شیٹ‘‘ پولیس اور انٹلیجنس فائلوں میں 2016ء میں ایک سرکلر کے ذریعہ یہ کہہ کر بند کی گئی کہ وہ اب انتقال کرگئے ہیں۔ اس فائل کا ٹائٹل تھا ’’ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘۔ برنا صاحب کے بھائی جناب معراج محمد خان مرحوم سے باقاعدہ 2014ء میں ایک خط کے ذریعے ایک ایجنسی نے برنا صاحب کا ’’ایڈریس مانگا‘‘ تو خان صاحب نے مجھے ٹیلیفون کیا میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اُن سے کہا ’’خان صاحب اُس افسر کو برنا صاحب کی قبر کا پتہ بتا دیں‘‘۔ جب خان صاحب نے افسر سے کہا کہ اُن کے بھائی کا تو 2012ء میں انتقال ہو چکا ہے تو حیران کن طور پر اُس نے پھر بھی ایڈریس مانگا یہ کہہ کر کہ فائل بند کرنی ہے۔‘‘

پاکستان میں سوچ، تحریر اور تقریر پر پابندیوں کی تاریخ پُرانی اور آج کے دور میں ’’تصویر‘‘ دکھانے پر بھی چاہے وہ ٹی وی پر یا اخبار میں ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے شہر بدر کیا جاتا تھا، ملک بدر صوبہ بدری اور اب یہ حکم ہے کہ فلاں افراد کی تقریر دکھانے اور تصویر دکھانے پر بھی پابندی ہے۔ بدقسمتی صرف یہ ہے کہ کل تک جن کی تقریر اور تصویر دکھانے پر پابندی تھی آج اُنہی کی پارٹی کی حکومت میں اپوزیشن لیڈر کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ بات صرف یہیں تک رہتی تو غنیمت تھی اب بھی اس ڈیجیٹل دور میں حکمرانی سوچ ’’کتاب‘‘ سےخوف زدہ نظر آتی ہے ہمارے ساتھی صحافی دوست حامد میر یا سہیل وڑائچ صاحب کی کتاب کا ٹائٹل پسند نہیں آیا تو کتاب اُٹھالی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک نوجوان صحافی جس کا تعلق بلوچستان سے ہے عزیز سنگھور کی کتاب اُٹھا لی گئی۔ اور یہ ساری کارروائی اُسی 1960ء کے قانون کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے یا پھر کبھی کبھی تو دہشت گردی کی دفعات بھی لگا کر دوسرے الفاظ میں انہیں ’’کتابی دہشت گرد‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ’’کتابی میلے‘‘ چاہے وہ کراچی میں ہوں یا گوادر میں، تربت میں ہوں یا سکھر میں اور وہ بھی سیاسی تناؤ اور دہشت گردی کے ماحول میں، غنیمت ہیں۔ آج بھی ہر دور کے حکمران اِن کالے قوانین کو بس ایک نئی ٹوپی پہنا دیتے ہیں کبھی اُس کا نام پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس 1963ء رکھ دیا جاتا ہے کبھی پیکا 2002ء، کبھی پیکا 2012ء تو کبھی پیکا2020ء اور اب بات پیکا2025ء تک آگئی۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہر دور کی اپوزیشن ان قوانین کو ختم کرنے کی بات کرتی ہے مگر جب یہ جماعتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ ایسے ہی قوانین کا سہارا لے کر اپنے مخالف صحافیوں اور میڈیا کو نشانہ بناتی ہیں۔ یہ لوگ مارشل لا کی مخالفت کرتے ہیں اور جب حکمران بنتے ہیں تو سویلین مارشل لا لگا کر تحریر اور تقریر یہاں تک کے تصویر پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں۔ تاہم جس معاشرےمیں رہ رہے ہیں وہاں صرف انسان نہیں کتابیں بھی اُٹھا لی جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھی صحافی اور نامور لکھاری محمد حنیف کی جنرل ضیاء الحق پر کتاب کا اردو ترجمہ آیا تو اُسے اجازت نہ ملی جبکہ انگریزی کتاب کے کئی ایڈیشن آئے۔ یہی حال سنسر شپ کے دور میں بھی ہوتا تھا انگریزی اخبار، رسائل کی سنسر شپ اور اردو اخبار اور رسائل کی سنسر شپ کا انداز مختلف ہوتا۔

بدقسمتی یہی ہے کہ کوئی بھی ایسا حکمراں نہیں آیا جس نے ادارے مضبوط کئے ہوں سب نے اپنا اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی جماعتیں جو برسراقتدار آئیں دوغلی پالیسی کا شکار رہیں۔ مثلاً مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی جب بھی اپوزیشن میں آئیں وقت کے حکمران کے میڈیا مخالف اقدامات کے موقع پر پی ایف یو جے کے احتجاجی کیمپوں میں آکر میڈیا مخالف کالے قوانین کے خاتمہ کا مطالبہ کیا اور جب اقتدار ملا تو اُس سے بھی زیادہ سخت قوانین لا کر ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت اُن قوانین کو برقرار رکھا ۔

آخر یہ کالا قانون ہوتا کیا ہے اور ایسے قوانین کو کیوں ختم ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ’’مادر پدر‘‘ آزادی ہو کہ صحافت تو نام ہی ذمہ داری کا ہے مگر اِس کا فیصلہ کون کرے گا وہ حکمران یاسرکاری و غیر سرکاری اشرافیہ جنہوں نے عوام سے جینےتک کا حق چھین لیا ہے یا وہ عدلیہ جہاں عوام کو انصاف ملنے میں 20،20 سال لگ جاتے ہیں۔ ’’کالے قوانین‘‘ اُن کو کہا جاتا ہے جو عوام سے جاننے کا حق چھین لیتے ہیں۔ اگر میڈیا کے ذریعہ اُن کو حکمرانوں کی سیاہ کاریاں بتائی جاتی ہیں، اگر کمزور طبقے کی آواز ایوان تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی آوازوں کو خاموش کرنے کیلئے جو قوانین بنائے جاتے ہیں اُنہی کو کالے قوانین کہا جاتا ہے۔

پیکا 2016ء پیکا 2025ء اور اُس کے درمیان پیکا 2020ء کے ذریعے پچھلی تین حکومتوں نے لوگوں کی آوازوں کو دبانے کیلئےپرنٹ اور الیکٹرونک کے بعد ڈیجیٹل میڈیا پر قوانین کے ذریعےحملہ کیا اور اب تو گرفتاریوں کی بھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔

میڈیا میں بہت سی خامیاں یا خرابیاں ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود اپنے گھر کو درست کرنے کیلئے اقدامات کریں مگر یہ کام ایسے حکمرانوں یا ایوانوں کا نہیں جن کے مینڈیٹ پر ہی سنجیدہ سوالات ہیں ۔ حکمرانوں کی فیک نیوز کا منہ بولتا ثبوت تو حال ہی میں شائع ہونے والا ایک ایسا فرنٹ پیج اشتہار ہے جس کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے پی ایف یو جے کا پہلے دن سے یہ موقف رہا ہے کہ وزارت اطلاعات کو ختم کیا جائے جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ختم کر دی گئی ہیں مگر یہاں تو معاملات ہی دوسرے ہیں۔ کئی وزارتیں اور محکمہ ختم کیے جارہے ہیں لیکن اِس کو اُس پول سے باہر کرنےکیلئے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو ایک طرح سے ’’لازمی سروس ایکٹ‘‘میں لےلیا گیا ہے۔

نہ صحافی کا کام، نہ ہی کسی میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں سہولت کاری کا کام کرے یہ اہل سیاست کا کام ہے یہ کام تو ’’اُن‘‘ کا بھی نہیں ہے جو پچھلے 76 سال سے یہی کام کر رہے ہیں۔ صحافت اتنی بھی آسان نہیں۔ جتنی ہم نے بنا دی ہے۔ ہر قلم پکڑنے والا یا مائیک تھامنے والا یا گھر میں بیٹھے کسی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال کرنے والا ضروری نہیں کہ صحافی ہو البتہ اُس کو اپنے تئیں اظہار رائے کا حق ضرور ہوتا ہے مگر یہ فیصلہ، کہ کون صحافت کے زمرے میں آتا ہے کون نہیں، خود میڈیا کو کرنا ہے یہ اختیار حکومتوں یا اشرافیہ کو نہیں دیا جا سکتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔