Time 24 فروری ، 2025
دلچسپ و عجیب

ایک دلچسپ نشانی جو شریک حیات سے مضبوط تعلق کا اظہار کرتی ہے

ایک دلچسپ نشانی جو شریک حیات سے مضبوط تعلق کا اظہار کرتی ہے
ایک تحقیق میں یہ دلچسپ انکشاف کیا گیا / فائل فوٹو

کیا آپ اور آپ کا شریک حیات خاموش رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ اطمینان محسوس کرتے ہیں؟

اگر ہاں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دونوں کا تعلق بہت مضبوط ہے۔

یہ دلچسپ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔

ریڈنگ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ اکثر خاموشی زندگی کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہے اور اس اصول کا اطلاق باہمی رشتوں پر بھی ہوتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ شریک حیات کے ساتھ خاموشی کے لمحات گزارنا درحقیقت صحت مند تعلق کی ایک نشانی ہے۔

درحقیقت تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ اگر مکمل خاموشی میں بھی دونوں خوشی محسوس کرتے ہیں تو یہ مضبوط جذباتی تعلق کی نشانی ہے۔

اس تحقیق کے لیے محققین نے مختلف تجربات کیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ خاموشی سے جوڑوں کے تعلق پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تحقیق کے دوران ایک گروپ سے پوچھا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کتنی دیر تک خاموش رہتے ہیں، اس سے جذبات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا وہ ایک دوسرے سے مطمئن ہیں۔

محققین نے خاموشی کے وقفوں کی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی اور رضاکاروں سے پوچھا کہ وہ شریک حیات کے ساتھ کب خاموشی اختیار کرنا پسند کرتے ہیں، جیسے انہیں ڈر ہو کہ بولنے سے شریک حیات کو غصہ چڑھ جائے گا، خاموشی کو سزا کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا خاموشی کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ باہمی تعلق اچھا ہو یا نہ ہو مگر خاموشی اختیار کرنے کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔

اگر تعلق خراب ہے تو خاموشی اختیار کرنے کا مقصد اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا یا سزا دینا ہے۔

اس کے مقابلے میں ایک دوسرے سے خوش افراد میں خاموشی باہمی تعلق کو مضبوط بنانے میں مددد فراہم کرتی ہے۔

محققین نے خاموشی اور خاموش رابطوں کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تصور کریں کہ شریک حیات ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے باہمی خیالات کا اظہار زبان کی بجائے نگاہوں سے کرتے ہیں یا شریک حیات پر کوئی جملہ کسنے کی بجائے اسے دیکھتے ہیں اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ آپ کو بات پسند نہیں آئی تو بغیر کہے ایک دوسرے کی بات کو سمجھ لینا باہمی مضبوط تعلق کی نشانی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل Motivation and Emotion میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :