پاکستان
06 مارچ ، 2013

پاک ایران گیس پائپ لائن : امریکا کے حربے، پراکسی وار کا آغاز

کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار ”کرسچیئن سائنس مانیٹر“لکھتا ہے کہ امریکا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو روکنے کے لئے سر توڑ حربے استعمال کررہا ہے۔اس کیلئے اس نے پاکستان میں پراکسی وار کا آغاز کردیاگیا۔ امریکا کے علاوہ ایک خلیجی ملک بھی اس منصوبے سے خوش نہیں۔ دونوں ممالک بلوچ علیحدگی پسندوں کو اس تنازع میں استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند قوم پرستوں سے ایران کو مسائل کا سامنا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ ان علیحدگی پسندوں کی وجہ سے ایران اس منصوبے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائے گا۔اخبار”کیا امریکا پاک ایران گیس پائپ بلاک کردے گا؟“ کے عنوان ے اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ امریکی حکام 7.5ارب ڈالر کے منصوبے کو پراکسی طریقوں سے روکنے کے تما م حربے استعمال کرچکا ہے۔780کلومیٹر پائپ لائن کا گیارہ مارچ کو افتتا ح کا اعلان پاکستان نے عالمی برادری سے کسی خوف کے بیر کردیاہے۔ اس سے قبل پاکستانی صد ر آصف علی زرداری ایرانی صدر اور سپریم لیڈر سے تہران میں ملاقات کرچکے ہیں ۔پاکستانی حصے کے پائپ لائن کی لاگت1.5ارب ڈالر آئے گی کیونکہ 9سو کلومیٹر کی ایرانی حصے کی پائپ لائن تکمیل کے قریب ہے۔ پاکستان میں توانائی بحران کی وجہ سے پائپ لائن کو امریکا پابندیوں کے باوجود بھی نہیں روک پائیں گی،واشنگٹن کی طرف سے دھمکیاں مزید امریکا مخالف جذبات کو ہوا دیں گی۔امریکی وزارت خارجہ نے پابندیوں کی دھمکی تو دی لیکن جب تک پائپ لائن کا معاہدہ حتمی نہیں ہو جاتا،پاکستان کو براہ راست دھمکی دینے سے گریز کیا ۔اس معاہدے کو روکنے کیلئے تاحال بیک ڈور کام کیا جار ہا ہے،لیکن ایران سختی سے اس منصوبے پرکام کررہا ہے۔حتی کہ پاکستانی حصے کے پائپ لائن کی بھی ایران سرمایہ کاری کررہا ہے۔امریکا نے ایران پائپ لائن کے مقابلے میں پاکستان کو بہترین معاہدے کی پیش کش کی ہے۔لیکن امریکا کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جوپاکستان کی توانائی بحران پر قابو پاسکیں۔تاہم ایرانی پائپ لائن پاکستان کو یومیہ 21.5ملین کیوبک میٹر گیس فراہم کرے گی۔امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان متبادل معاہدے ترکمانستان،افغانستان،پاکستان اور بھارت(تاپی) پائپ لائن کے معاہدے کی طرف جائے۔یہ معاہدہ ایران کو بائی پاس کرے گا۔تاہم تاپی منصوبے کو سیکورٹی وجوہ کی بناء پر کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔اسے طالبان ہدف کا نشانہ بنائیں گے یا اس سے سب سے مفاد طالبان ہی حاصل کریں گے۔جب کہ کئی ماہرین کے نذدیک اگر تاپی پر بھرپور عمل کیا جائے تب بھی 2018سے قبل یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوگا۔واشنگٹن ابھی بھی اس موقف پر قائم ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر عائد پابندیوں کی خالاف ورزی ہے۔لیکن اسلام آباد امریکی دھمکیوں کو کوئی خاطر میں نہیں لایا اور صدر آصف زرداری نے بیرونی دباوٴ کو خاطرمیں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ درست ہے کہ آصف زرداری کے لئے بہتر وقت نہیں ہے۔کیونکہ ان کی مدت صدارت ختم ہونے والی ہے۔ دو ہفتوں میں پارلیمٹ تحلیل ہوجائے گی اور مئی کے وسط میں انتخابات ہو نے جا رہے ہیں۔اخبار کے مطابق اس پائپ لائن کو سبو تاز کرنے کے امریکا کے پاس کئی اور بھی راستے ہیں ہے ۔پائپ لائن بلوچستان کے علاقے سے گزرتی ہے جو کہ علاقائی پائپ لائنوں پر جنگی محاذ بننے جا رہا ہے۔امریکا کے علاوہ ایک خلیجی ملک بھی اس منصوبے کا خاتمہ چاہتا ہے۔اور وہ پہلے ہی کسی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔بھارت امریکی دباوٴ کی وجہ سے پہلے ہی اس منصوبے سے باہر ہوچکا ہے۔امریکا اور خلیجی ملک بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہے ہیں،ایران کو بلوچ علیحدگی پسندوں سے خطرہ ہے۔ایران کو یہ امید ہے کہ اگر اس تنازع میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو ابھارا جائے تو ایران اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ بلوچستان میں یہ پراکسی جنگ ایران کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

مزید خبریں :