Time 25 مارچ ، 2025
پاکستان

جن اعذار میں روزہ نہ رکھنا یا توڑنا جائز ہو جاتا ہے

جن اعذار میں روزہ نہ رکھنا یا توڑنا جائز ہو جاتا ہے
مفتیان کرام اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟/فوٹوفائل

سوال: روزہ توڑنا کس حالت میں فرض اور واجب ہے، کس حالت میں جائز ہے،  کن حالتوں میں کھانا کھانا واجب اور فرض کے درجے میں ہے، کس حالت میں مکروہ اور کن حالتوں میں مستحب ہے؟

جواب: واضح رہے کہ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل، بالغ مسلمان پر فرض ہیں، اور کسی صحیح عذر کے بغیر روزہ نہ رکھنا یا توڑنا حرام ہے، شریعت نے جن اعذار میں فرض روزہ نہ رکھنے یا توڑنے کی اجازت دی ہے، وہ نو ہیں ،ذیل میں ان اعذار کو کچھ تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔

1)سفر : اگر کوئی شخص سفر شرعی میں ہو، تو اس کے لیے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا جا ئز ہے، بعد میں ان روزوں کی قضا لازم ہےالبتہ اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔

2)شدید بیماری: جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو، اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو، اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے، اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا یا روزہ رکھنے سے جان یا کسی عضو کی ہلاکت یا بیماری بڑھ جانے یا اس کی طوالت کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے، کفارہ نہیں ہے۔

3،4)عورت کا حاملہ یا مرضعہ ہونا:حاملہ یا مرضعہ کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی جان یا بچے کی جان کا خوف ہو تو اس کے لیے روزہ نہ رکھنا یا توڑنا جائز ہے ،صحت کے بعد ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہو گا ،البتہ کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

5،6) شدید بھوک اور پیاس کا لگنا: نہ کھانے اور پینے سے ہلاکت یا عقل کے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑنا جائز ہے البتہ بعد میں قضا لازم ہے، کفارہ نہیں ہے۔

7) ہلاکت یا عقل کے نقصان کا خوف :چاہے کسی وجہ سے بھی ہو ،مثلاً سانپ یا زہریلے جانور نے کاٹ لیا ہو، اس صورت میں روزہ توڑنا جائز ہے، بعد میں قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

8) جہاد: اگر مجاہد کو یقین ہے کہ آج جنگ ہو گی اور دوران جنگ ضعف کا خدشہ ہو تو اس کے لیے بھی افطار جائز ہے،بعد میں قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔

9) اکراہ:یعنی اگر کوئی زبردستی کھانے پر مجبور کرے لیکن نہ کھانے کی صورت میں قتل، کسی عضو کے تلف یا تکلیف دہ مار کا اندیشہ نہ ہو تو روزہ توڑنا جائز نہیں ہے اور اگر مذکورہ خطرات کا اندیشہ ہو تو روزہ توڑنا جائز ہے، اور ان مذکورہ خطرات پر صبر کر لیتا ہے تو عند اللہ ماجور ہوگا۔

نیز یہ واضح رہے کہ نفلی روزوں میں مذکورہ اعذار کے ساتھ ساتھ ضیافت مہمان اور میزبان دونوں کے لیے عذر ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے، اگر کسی شخص کے پاس کوئی مہمان آئے اور اس دن وہ شخص (میزبان) نفل روزے سے ہو اور مہمان ایسے ہوں کہ اگر میزبان ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو تو ان کو برا لگے گا۔

 اس طرح اگر کوئی شخص کسی کا مہمان بنے یا کوئی شخص اس کی کھانے کی دعوت کرے اور وہ شخص روزے سے ہو اور اس صورت میں اگر یہ شخص کھانا نہ کھائے تو میزبان یا داعی کو برا لگ سکتا ہے تو اس شخص کے لیے نفل روزہ توڑکر کھانا کھالینے کی گنجائش ہے، کوئی گناہ نہیں ہوگا ،لیکن اس پر ضروری ہے کہ آئندہ اس کے بدلے ایک روزے کی قضا کرے، البتہ اگر اس شخص کو اپنے اوپر اس بات کا اعتماد نہیں کہ وہ آئندہ روزہ رکھ سکے گا یا نہیں تو اسے روزہ نہ توڑنا چاہیے؛ بلکہ میزبان اور داعی کو معذرت کردینی چاہیے،ضیافت کی صورت میں یہ گنجائش زوال سے پہلے تک کی ہے، زوال کے بعد روزہ توڑنا نہیں چاہیے۔

جہاں تک حیض و نفاس کی بات ہے تو عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں، روزہ رکھنے کے بعد حیض اور نفاس کا خون آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

نیز واضح رہے کہ جان بچانا فرض ہے، اس لیے اگر اپنی جان یا بچے کی جان کا خطرہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑنا فرض اور واجب کے درجے میں ہوگا، ہاں سفر وغیرہ میں جہاں جان کا خطرہ نہیں، وہاں روزہ توڑنا جائز ہے، البتہ رکھنا بہتر ہے، جہاں تک حیض اور نفاس کی بات ہے تو اگر ان ایام میں روزے آگئے، تو اس میں تو روزہ ہو گا ہی نہیں، اور اگر دورانِ روزہ حیض یا نفاس شروع ہوگئے تو روزہ از خود ٹوٹ ہی جائے گا۔

مزید خبریں :