10 مارچ ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی جریدہ ”نیشنل جرنل“ کے مطابق پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکی حکام پاکستان کے جوہری پروگرام کے حساس سیکورٹی پہلووٴں کے راز ذرائع ابلاغ کو افشاء کرتے ہیں۔ واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی حکام اس کی واضح مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غلط اور اشتعال انگیز میڈیا کوریج دونوں ممالک کے تعلقات کے لئے نقصان دہ ہے ۔دونوں ممالک میں عوامی مفادات کی وکالت کرنے والے جوہری سیکورٹی پالیسیوں کے غیرشفافیت ہونے پر عسکری ماہرین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ،ان کے نذدیک یہ صورت حال خطے کو خطرے سے دوچارکرسکتی ہے۔ پاکستان کے نزدیک مغرب نے ملٹری بیسز پر عسکریت پسندوں کے حملوں کو غیر متعلقہ خبروں پر فوکس کیا اور کہا گیا کہ جوہری بم عسکریت پسندوکے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ گزشتہ اگست منہاس بیس پر عسکریت پسندوں کے خلاف دو گھنٹے کی کارروائی میں 8 عسکریت پسندہلاک اور سیکورٹی اہلکار شہید ہوا۔ کہا جاتاہے کہ اس بیس میں جوہری ہتھیاروں کاکچھ ذخیرہ ہے، طالبان کے اسی طرح کے حملے کے خدشے کے پیش نظر2012میں پاک فوج نے ڈیرہ غازی خان تنصیبات کی سیکورٹی کیلئے اہم اقدامات کئے،اگرچہ یہ واضح نہیں کہ پاکستانی طالبان نے جوہری ہتھیاروں یا ریڈیالوجی ڈرٹی بم کے مواد کیلئے کوئی منصوبہ بنایا تھا،خطے میں موجود القاعدہ نے کہا تھا کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ پاکستانی بم کو امریکا کے خلاف استعمال کریں گے ۔جریدے نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں امریکی حکام کے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں حکام نے شکایت کی کہ محفوظ ترین جوہری ہتھیاروں کے متعلق مغربی میڈیاغلط تاثر دے رہا ہے اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرر ہا ہے۔ امریکی اور پاکستانی تھنک ٹینکس کے مشترکا فورم میں شرکت کیلئے رواں ہفتے امریکا میں 21پاکستانی اور امریکی صحافی جمع ہوئے،جریدے کے مطابق70کی دہائی کی ابتداء سے ہی پاکستان کا جوہری پروگرام خفیہ پردوں میں لپٹا ہوا ہے اور عوام کو اس متعلق کوئی معلومات نہیں۔معلومات کی اسی کمی سے کئی جہادی تنظیموں کے اڈوں میں سیکورٹی خدشات نے سراٹھاتے ۔پاکستان میں استحکام کے متعلق کچھ واضح نہیں،رواں برس عام انتخابات کاانعقاد اور پہلی بار سویلین حکومت کی منتقلی ہونے جا رہی ہے۔2012کے مقابلے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی اور فرقہ وارانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔2014سے افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد سرحد پار حالات کے غیر مستحکم ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوگا۔ جوہری ہتھیاروں اور حساس جوہری مواد کے چوری یا غلط استعمال کے تحفظ پر امریکی سفارت کار اور فوجی رہنما کئی برسوں سے پاکستانی ہم منصبوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ جریدے کے مطابق اسلام آباد کے جوہر ی وارہیڈز اپنی ڈلیوری گاڑیوں سے الگ کئی مقامات پر ذخیرہ کیے گئے ہیں۔واشنگٹن حکام نے کئی بار پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے متعلق برملا اعتماد کا اظہار کیا ہے تاہم کبھی کبھار تشویش بھی ظاہر کی ہے۔جریدے نے گلوبل سیکورٹی نیو ز وائر اور دیگر ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے حوالے سے لکھا کہ پاکستانی حکومت کے بحران یا خانہ جنگی جیسے ذرا سے خدشات میں امریکا پاکستان میں داخل ہوسکتا ہے، اگر امریکا نے سمجھا کہ پاکستانی حکومت جوہری ہتھیاروں پر اپنا کنٹرول کھو سکتی ہے تو امریکی ملٹری منصوبہ سازوں نے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کیلئے ممکنہ ہنگامی منصوبہ تیار کیا ہوا ہے،اس سلسلے میں امریکی جنگ جو کمان نے سیکڑوں ڈیسک ٹاپ مشقیں کی ہیں۔کسی بھی عالمی بحران کیلئے صدر ملٹری مشن کا حکم دے سکتا ہے۔اگرچہ امریکی محکمہ دفاع کی ایسی مشقیں انتہائی خفیہ رکھی جاتی ہیں۔جریدے نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد خدشات کا ذکرکرتے ہوئے لکھا کہ پاکستانیوں کے نذدیک امریکا کی پاکستا ن کے جوہری ہتھیار وں میں دلچسپی اس امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے جس میں وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے،امریکا پاکستانی ذرائع توانائی کا حصول اور چین کو قابو کرنا چاہتاہے۔پاکستانی تجزیہ کار سے لکھا گیا کہ امریکا پاکستانی جوہری ہتھیاروں کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں چاہتا ہے اس لئے امریکا نے پاکستان میں افراتفری کی صورت حال پیدا کی ہے۔واشنگٹن میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں کئی فوجی حکام کو شبہ ہے کہ ان کے ہم منصب امریکی فوجی حکام اور سفارت کار پاکستان کے جوہری پروگرام کی کمزوریوں کی کہانیا ں افشاء کرتے ہیں،تاکہ پاکستان کو بدنام کرکے آپریشن کی راہ ہموار کی جائے۔امریکی حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان فوجی سطح یا دیگر مذاکرات میں جوہری ایشو پر خاموشی اختیار رکھتا ہے اس کی وجہ اعتماد کی کمی ہے۔امریکی ماہرین پاکستان کی اس سرد مہری کو سیکورٹی نقصان قرار دیتے ہیں۔امریکی حکام کہتے ہیں کہ بحران میں ممکنہ امریکی مداخلت یا امن میں جوہری ہتھیاروں کی حفاظت نے واشنگٹن کیلئے پاکستانی فوج سے بات چیت برقرار رکھنے میں مشکلات پید اکردی ہیں۔پاکستان جس کو اپنے تحفظ کا تاج سمجھتا ہے اس نے دو طرفہ تعلقات کو متاثر کیا ہے۔محکمہ دفاع کے ترجمان نے اس پر اعتدال پسند موقف دیا۔لفٹینٹ کرنل جیمز گریگوی کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹوں پر پاکستان سے تعلقات کو خراب نہیں کیا جاسکتا ۔