Time 23 اپریل ، 2025
بلاگ

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
 بطور ماہر نفسیات کا ہو یا ایک نظریاتی سماجی کارکن کا ہارون صاحب کو آخری دنوں تک معاشرے کی نفسیاتی اور سماجی صحت کی خدمت کرتے پایا/  فوٹو: انٹرنیٹ 

پروفیسر ہارون احمد صاحب سے پہلی ملاقات ایک کالج کے طالبعلم کی حیثیت سے لگ بھگ 4 دہایوں قبل ہوئی، 80 کی دہائی، ملک بھر میں جنرل ضیاء کے آمرانہ دور کی سیاہ پرچھائیاں قومی تشخص پر مذہبی جماعتوں، افغان جہاد کی جنونیت اور ریاستی جبر کے تسلط کا ماسک چڑھانے کی کوششیں، معاشرے کے گرد گھٹن کے جالے جنھوں نے تعلیمی اداروں کو بھی اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا تھا۔

ان دنوں میں ڈی جے کالج کراچی میں تھا جہاں ہر دوسرا طالبعلم ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، ہمارے بیچ سیاسی تاریخ سے شناسا طالبعلم ڈاکٹر ہارون اور انکے دوست ڈاکٹر سرور صاحب اور ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کی شخصیتوں سے متعارف تھے۔ کس طرح ڈاو میڈیکل کالج کے ان طالبعلموں نے برصغیر کی تقسیم کے چند برسوں بعد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کی پروگریسو سیاست کی بنیاد رکھی، تنظیم کا نام ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن رکھا گیا، طالبعلموں کی اس تحریک نے ملکی سیاست اور عوام میں آگہی کے اہم نقوش چھوڑے۔

قصہ مختصر، ہم ان شخصیات سے شناسا ضرور تھے مگر ملاقات نہ تھی، ڈاکٹر ہارون کسی زمانے میں خود بھی ڈی جے کالج میں پڑھتے تھے، انھی دنوں ہمیں علم ہوا کے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی-ایم-اے) اور پاکستان مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن جنرل ضیاہ کے مارشل لا دور کے خلاف صحافیوں، وکلاء اور جمہوری قوتوں کیساتھ مل کر کردار ادا کر رہی ہے۔

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
ڈاکٹر ہارون اور انیس ہارون کے ساتھ صحافی اویس توحید اور ان کی اہلیہ نازش بروہی موجود ہیں

ایک میٹنگ میں ملاقات ہوئی، سرخ سفید رنگت، چہرے پر نظر کا چشمہ، ذہانت بھری آنکھیں، کشادہ پیشانی، سر پر سفید بالوں کی بڑھتی تعداد نمایاں، ارد گرد ڈاکٹر حضرات کا مجمع، ہاتھ میں فاونٹین پین ملک میں جمبہوریت کی بحالی کی قرارداد کی نوک پلک سنوار رہے تھے۔ تعارف ہوا، شفقت بزرگانہ لیکن دوستانہ بھی، کالج کا حال احوال دلچسپی سے سنا، ملکی سدھار میں نوجوانوں کے کردار کی اہمیت پر چند کلمات ادا کیے، ہم سب ان کی شخصیت کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ ناطہ ذاتی اور نظریاتی زندگی بھر کا ہو چلا۔

یہ تعلق انکی اہلیہ انیس ہارون کے توسط سے پختہ ہوا جو انسانی حقوق کی علمبردار ہیں جنھوں نے ملک میں خواتین کے حقوق کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے، میری اہلیہ نازش بروہی کی انیس ہارون کے ساتھ ملک میں خواتین کی تحریک میں گہری وابستگی رہی ہے، یہ تعلق وقت کے ساتھ یوں سمجھ لیجیے کہ ایک خاندان کا سا ہوگیا، ہماری بیٹی رسا کو بھی ہارون صاحب اور انیس کی سرپرستی حاصل رہی۔

ہمیں اپنی پہلی ہی ملاقات میں انکے نظریات کے محور کا احساس ہوا، یعنی ملک کی شناخت روشن خیال اور سیکولر پاکستان کی ہونی چاہیے، انکا ماننا تھا”ایسا دیس جہاں ریاست کو سوچ، فکر، لسانیت، مذہبی وابستگی پر کسی بھی شہری، گروہ یا برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کا حق نہیں ہونا چاہیے، ریاست کے امور کا کسی مذہبی وابستگی سے سرو کار نہیں ہونا چاہیے۔”

زندگی بھر ہارون صاحب کو معاشرے کی ترویج کو انہی خطوط پر سنوارنے کی کوشش میں مصروف پایا۔

ڈاکٹر ہارون کی شخصیت کو اگر پیشہ وارانہ عدسہ سے جاننے کی کوشش کریں تو انہیں آپ ایسا ایک معروف ماہر نفسیات پائیں گے جو زندگی بھر ملک میں ذہنی صحت کی آگہی کا پرچار کرتے رہے، ادارے تشکیل دیئے، فری کلینکس کا قیام، سینکڑوں میڈیکل طالبعلموں کو نفسیات کے شعبے سے جوڑا اور ہزاروں لوگوں کو صحتیاب کیا، لگ بھگ یہ سلسلہ 6 دہائیوں پر محیط رہا۔

کردار چاہے بطور ماہر نفسیات کا ہو یا ایک نظریاتی سماجی کارکن کا ہارون صاحب کو آخری دنوں تک معاشرے کی نفسیاتی اور سماجی صحت کی خدمت کرتے پایا۔

جنرل ایوب کا مارشل لا ہو یا یحٰیی خان کا، جنرل ضیاء کا فوجی دور ہو یا جنرل مشرف کا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا معاملہ ہو یا 70 کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں بلوچستان میں فوجی آپریشن، ڈاکٹر ہارون اور انکے ساتھیوں نے سیاسی قبلہ درست رکھا، احتجاج کی آواز بلند کرتے ہوۓ جمہوری اور روشن خیال نظریات کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
ڈاکٹر ہارون ڈاکٹر سرور، حمزہ علوی اور پروفیسر ایرک رحیم کے ساتھ۔/ فوٹو: جیو نیوز

جنرل ضیاء کے دور میں بیرون ملک سفر پر پابندی بھی لگائی گئی، بھلا ہو وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر کا جو ہارون صاحب کے چاہنے والوں میں تھے، انہوں نے بقول انیس ، نہ صرف ہارون صاحب کو آگاہ کیا بلکہ اپنے تئیں سرکاری فائل میں درج بوگس الزامات کو خارج کیا۔

ہارون صاحب نے کبھی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ باضابطہ طور پر وابستگی اختیار نہیں کی، تاہم اپنے نظریات کی بنیاد پر بائیں بازو کی سیاست سے ہم آہنگی رہی۔ پیپلز پارٹی کے ابتدائی ایام میں لبرل پروگریسو خیالات کی وجہ سے ہمدردیاں رہیں لیکن مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھٹو صاحب کے فیصلوں سے نا خوش رہے۔ انھی کے دور میں بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا، بائیں بازو کے عناصر کے ساتھ بھٹو صاحب کے اس فیصلے کے بھی مخالف رہےاور پروگریسو بلوچ رہنماؤں بشمول عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو کے ساتھ تعلق رکھا۔

ان دنوں ہارون صاحب اور ڈاکٹر ساتھیوں کا گروپ بلوچستان میں علاج معالجہ اور ادویات کی فراہمی میں مدد کر دیتے تھے۔

70 کی دہائی میں بلوچستان میں جاری شورش یا ریاست مخالف سیاست لسانیت سے بالاتر تھی، شاید اسی وجہ سے مختلف لسانی اکائیوں اور طبقات کے ترقی پسند حلقوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہمدردیاں تھیں، ان ہی حلقوں میں لندن کے اعلیٰ اداروں سے تعلیم یافتہ پاکستان کے طالبعلموں کا ایک گروہ بھی شامل تھا جس نے بلوچستان میں عملی طور پر حصہ لیا، اس گروہ کو لندن گروپ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

انیس ، 1970کی دہائی میں بلوچستان میں جاری آپریشن اور ہارون صاحب سے جڑا قصہ کچھ یوں بیان کرتی ہیں، گو کہ انیس کو اس قصہ کا علم کئی دنوں بعد ہوا۔ “پہاڑیوں پر لڑائی جاری تھی، ایک دھماکے میں کئی لوگ شدید زخمی ہو گۓ تھے، ایک کے ہاتھ میں زہر پھیل گیا تھا اورجان کا خطرہ لاحق تھا، ہارون سے مدد مانگی تو وہ اپنے ڈاکٹر دوست کیساتھ بلوچستان چل پڑے، ہمیں تو ان کی واپسی کے کچھ روز بعد علم ہوا ۔”

“بلوچستان کے شہری علاقے سے پہاڑیوں پر اونٹ اور گھوڑوں پر سوار کر کے لیجایا گیا۔ ٹارچ کی روشنی میں آپریشن کیا۔”

“زندگی میں نہ گھڑ سوار ی کی نہ اونٹ پر سواری، دونوں ٹانگوں پر کئی دنوں تک نیل پڑے رہے۔” “ہارون کا جواب سادہ اور سیدھا تھا۔”جان بچانے کا سوال تھا، جانا تو تھا۔”

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
فوٹو: جیو نیوز

انیس مسکراتے ہوۓ اور فخریہ انداز میں ہارون صاحب کے ساتھ بتاۓ ہوئے اپنے پچپن کے برسوں کی یادوں کا ذکر کرتی ہیں۔ لائف پارٹنر کے چناؤ میں انیس اور ہارون صاحب دونوں ہی خوش قسمت تھے۔ بلا کی ہم آہنگی، 70 کی دہائی کے اوائل میں دونوں کی ملاقات ہوئی، انیس کی سیاسی وابستگی بھٹو صاحب اور بیگم نصرت بھٹو صاحب کیساتھ تھی، بائیں بازو کی فکری نشستوں سے گہری وابستگی ہارون صاحب کے توسط سے ہوئی، ہارون صاحب نے انیس سے خواتین کے حقوق کی تحریک اور نسوانیت سے جڑی حساسیت کو گہرائی سے جانا، دونوں کے دوست زندگی کے ساتھ ساتھ مشترک ہوگۓ۔

گزشتہ 20، 25 برسوں سے ہمارا انکے گھر آنا جانا شروع ہوا، ہارون صاحب، انیس اور انکے حلقہ احباب کو قریب سے جاننے کا موقعہ ملا، کلفٹن میں تاریخی موہٹہ پیلس سے کچھ فاصلے پر انکی رہائش گاہ تھی، دیوار پر تختی آویزاں “ہارونز”۔ اکثر و بیشتر یہیں شام کو ملاقاتیں ہوتیں، ہارون صاحب سفید کرتے پاجامہ میں ملبوس، ارد گرد دہائیوں کے ساتھی عارف حسن وجہ شہرت بحیثیت آرکیٹیکٹ لیکن عقل و دانش میں ایک سوشل سائنٹسٹ، بلا کے ذہین اور سماجی مسائل پر مختلف زاویوں سے گرفت رکھتے، مرحوم سلیم عاصمی صاحب کی شناخت بطور ڈان اخبار کے ایڈیٹر کی، مصور ی اور کلاسیکل موسیقی سے عشق تھا۔

ڈاکٹر عبداللہ منگی، ڈاکٹر طارق، انیس کی اسکول کے دنوں کی ساتھی اور ٹی وی انڈسٹری کی معروف شخصیت سلطانہ صدیقی، مشہور دانشور اور شاعرہ فہمیدہ ریاض، ڈاکٹر سرور کی اہلیہ ماہر تعلیم ذکیہ، شیما کرمانی، ابڑو اور عطیہ ، عظمی نورانی، بابر ایاز ، ڈاکٹر جعفر احمد، مشہور فلم میکر ستیش آنند، ایک طویل فہرست ہے، ہارون صاحب سیاسی اور معاشرتی مسائل پر احباب کی آراء پوچھتے اور آخر میں اپنے مخصوص دھیمے لہجہ میں مسائل پر تجزیاتی روشنی ڈالتے۔

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
ڈاکٹر ہارون نے بابر ایاز (مرحوم) اور سلیم عاصمی (مرحوم) کے ساتھ چند سال قبل کراچی میں ایس آئی یو ٹی کے زیر اہتمام ایک آگاہی مہم میں حصہ لیا تھا/ فوٹو: جیو نیوز

اس جنریشن کامعاشرے سے لگاو مثالی ہے، انتہا کی توانائیاں لال شہباز قلندر کے مزار پر خودکش دھماکہ ہو یا میرے آبائی شہر لاڑکانہ کے مندر پر انتہا پسندوں کا حملہ ہو یا احمدی لیکچرار جنید حفیظ کے دفاع کرنے والے وکیل راشد رحمان کا ملتان میں قتل ہو، ہارون صاحب، انیس اور انکے ساتھی ہمیشہ انتہا پسندی کے خلاف مزاحمتی آواز بلند کرتے اور اقلیتی برادریوں کیساتھ یکجہئتی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ۔

چند برس قبل ڈاکٹر ادیب رضوی کے ادارہ ایس آئی یو ٹی (SIUT) کے زیر اہتمام کراچی میں اعضاء کے ڈونیشن کے حوالے سےآگاہی کیلئے واک منعقد ہوئی، ایک تصویر میں ہارون صاحب اپنی چھڑی کے سہارے کھڑے ہیں اور ساتھ میں سلیم عاصمی اور بابر ایاز جو اپنی وہیل چیرز پر واک میں شرکت کرتے نظر آرہے ہیں۔

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
ڈاکٹر ہارون فلسطین کی حمایت میں نکالی گئی ریلی میں شریک ہیں/ فوٹو: جیو نیوز

گزشتہ برس میں اور نازش امریکہ میں تھے تو انیس سے ہارون صاحب کی خیریت دریافت کی، جواب واٹس اپ میسج کی تصویر میں، ہارون صاحب وہیل چیئر میں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل و عام پر احتجاجی ریلی میں موجود تھے۔

ریاست ایسی ہی کمٹمنٹ والی شخصیات سے معاشرے کو مذہبی انتہاپسندی سے نجات دلا سکتی ہے اور ملک کو روشن خیال نظریات سے سنوار سکتے ہیں نہ کہ انکی بعض ریاستی پالیسیوں پر تنقید کو ملک مخالف سمجھ کر۔

ڈاکٹر ہارون، ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب جیسی مثالی شخصیات کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے جمبہوری قوتوں اور سول سوسائٹی کو اجتماعی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

قصہ ڈاکٹر ہارون اور انکے آشرم کا
ڈاکٹر ہارون کی ڈاکٹر ادیب رضوک کے ساتھ ایک یاد گار تصویر/ فوٹو: جیو نیوز

میں اور نازش پہلی مرتبہ ہارون صاحب کی رہائش گئے تو وہ یکم مئ کا دن تھا۔ ہر سال یکم مئ کے روز گھر کی اوپن ڈور پالیسی ہے، دن بھر انسانی حقوق، خواتین کی تحریک، وکلاء اور صحافی برادری سے جڑی شخصیات، لیبر یونین رہنماؤں اور پیس ایکٹیو سٹس کا تانتا بندھا رہتاہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت اور انتہا پسندی والے ماحول میں ہارون صاحب اور انیس کا گھر گویا لبرل پروگریسو لوگوں کا آشرم رہا ہے۔

کچھ روز قبل ہم اسی گھر کے لان میں ہارون صاحب کو یاد کر رہے تھے، میرے ذہن میں تصاویر گردش کرہی ہیں، یکم مئی، ہارون صاحب اور انیس کا گھر کھچا کچھ بھرا ہوا ہے۔ شام ڈھلنے کو ہے، لان میں نشستیں سجی ہیں، تخت پر موسیقار ارشد محمود اور تھیٹر ڈائریکٹر خالد احمد ہی، فیض احمد فیض کا کلام گایا جارہا ہے، ہارون صاحب سفید کرتے پاجامہ میں ملبوس محفل میں شریک دوستوں کیساتھ “ہم دیکھیں گے”گنگناتے ہوۓ محو ہیں، محفل کا اختتام ہوتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔