23 اپریل ، 2025
پاکستان سپر لیگ سیزن "ٹین" 2025 میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کو 5 میچوں کی میزبانی ملی،البتہ ماضی کی طرح پاکستان کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم جہاں 30ہزار سے زائد لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے،کراچی کنگز اور مخالف ٹیموں کے معرکوں کے دوران تماشائیوں کی عدم دل چسپی نے ایک بار پھر سوالات اٹھادیے۔
کیا واقعی کراچی کے عوام کا دل کرکٹ سے بھر گیا ہے یا پھر پی ایس ایل بے رنگ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے عوام کی توجہ حاصل نہیں کر پائی ہے،لیکن کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کے حوالے سے اٹھتے یہ سوال پہلی بار نہیں کیے جا رہے ہیں، ماضی میں بلخصوص کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں مقابلوں کے دوران لوگوں کی عدم دلچسپی سوالات اٹھا رہی ہے۔
حال ہی میں آئی س سی چیمپئنز ٹرافی کے مقابلوں کے دوران بھی کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم مکمل طور پر نہیں بھر سکا تھا، نیشنل اسٹیڈیم میں بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ کے دوران بھی اس تاریخی اسٹیڈیم کے حوالے سے ایسی باتیں ہوتی رہی ہیں ، پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز ملتان سلطانز کے اونر علی ترین نے شائقین کی عدم دلچسپی پر گفتگو کرتے ہوئے ایک پوڈ کاسٹ میں یہ تک کہہ دیا تھا کہا کہ کراچی کو میچ کیوں دئیے جاتے ہیں۔
چند دن پہلے علی ترین "اسکور" پروگرام میں مہمان بنے تو میں نے ان کے سامنے سوال رکھا کہ اب آپ خوش ہیں، پی سی بی نے سیزن "10" میں کراچی کو صرف 5 میچ دیے،علی ترین کا جواب تھا،دیکھئے پی سی بی سے مجھے یہی شکایت ہے،میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ کراچی کو میچز نا دیے جائیں ،میں نے کہا تھا کہ کراچی کے عوام کو میچوں کے دوران ایسی سہولیات دو کہ وہ میچ دیکھنے اسٹیڈیم کا رخ کریں ،علی ترین بولے نیشنل اسٹیڈیم کے انکلوژر کے سامنے لگے لوہے کے جنگلے سے کیا لوگوں کو کھلاڑی کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، باقی اور معاملات کو سہولیات کو بہتر کرنا ہوگا، میں نے یہ تجویز دی تھی، اب بورڈ نے تو بہت ہی آسان راستہ اختیار کیا،انھوں نے کراچی کے میچ ہی کم کر دیے۔
واقعی یہ ایک سنجیدہ بات ہے، نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے جس علاقے میں موجود ہے وہ کافی مصروف شاہراہ ہے، یہاں کچھ مسافت پر ایک یونیورسٹی ہے، ایک وویمنز کالج ہے، دو بڑے اسپتال ہیں، پاکستان ٹیلی وژن کا سینٹر ہے، شادی ہالز ہیں ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آئی تو اسٹیڈیم سے کافی دور واقع میلنیم ،کارساز اور حسن اسکوائر سے روڈ بند کر دیا جاتا تھا،لوگ خاصے ناراض ہوا کرتے تھےکہ نیشنل اسٹیڈیم میں میچ اور کراچی کا پورا ٹریفک جام، لیکن اب سیکوریٹی اداروں کی محنت اور مربوط حکمت عملی کا ثمر ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔
اب آپ کیب سروس سے اسٹیڈیم کے مین گیٹ پر اتر سکتے ہیں، پارکنگ کا وہ چیلنج نہیں جو چند سال پہلے تھالیکن اس کے باوجود چند ایک چیزیں ہیں، جو کراچی اسٹیڈیم میں عوام کو آنے سے روکتی ہیں، ان میں سے چند قابل ذکر یہاں پیش کر رہا ہوں۔
سب سے پہلے تو پی سی بی انتظامیہ کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کے میچ میں لوکل ایڈمسٹریشن کا مطلب کرکٹ ایسوسی ایشن کا کوئی لین دینا نہیں ہوتا، پھر شناختی کارڈ ایک سے زیادہ جگہوں پر چیک کرنا وقت کا بہت بڑا ضیاع ہے،جس کے سبب لوگوں کا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے، اسٹیڈیم کے اندر لوگوں کو کھانے پینے کے حوالے سے اس حد تک اخراجات آجاتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں کہ جتنے کا ٹکٹ نہیں تھا اس سے زیادہ تو ہمارے پیسے خرچ ہوگئے، پھر پارکنگ اور اسٹیڈیم میں داخلے ہو نے کے حوالے سے بعض اوقات انھیں جب اچانک یہ پتہ چلتا ہے کہ بڑے صاحب نے آپ کا روٹ تبدیل کر دیا ہے تو لوگوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں ۔
کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان 12 اپریل کو بڑا دل چسپ اور سنسنی خیز میچ کھیلا گیا، اس میچ میں 2 سینچریاں بنیں، خوب چھکے اور چوکے لگے، البتہ انٹرٹیمنٹ سے بھرپور اس مقابلے کو دیکھنے کے لئے اسٹیڈیم میں کراوڈ کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر تھی، پی ایس ایل کے اس میچ نمبر 3 کے برعکس ایک دن پہلے کراچی کی شاہراہ فیصل پر اسرائیلی مظالم اور فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے ایک بڑا عوامی اجتماع منعقد ہواجس کے بعد سوشل میڈیا پر اس بات کو خوب ہائی لائٹ کیا گیا کہ کراچی کے عوام نے پی ایس ایل کا بائیکاٹ کردیا،لوگوں کی یہ رائے اپنی جگہ لیکن درحیقیت پاکستانی عوام کی کرکٹ کے کھیل میں دل چسپی سے کون واقف نہیں ،مجھے لگتا ہے کہ نیشنل اسٹیڈیم میں سہولیات کی عدم دستیابی اور لوگوں کے لئے دوستانہ رویہ اور لوکل ایڈمنسٹریشن کی غیر موجودگی خالی اسٹیڈیم کی ایک بٹری وجہ ہے۔
پاکستان میں لوگوں کے لئے کرکٹ ایک بڑی انٹرٹینمنٹ ہے اور لوگ اسٹیڈیم میں آکر میچ دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں،کراچی کے اسٹیڈیم کے برعکس لاہور کے قذافی اسٹیڈیم ، ملتان اسٹیڈیم اور پنڈی اسٹیڈیم میں لاگوں کی دل چسپی ان کی حاضری سے ظاہر ہوتی ہے۔
اس مرتبہ پاکستان سپر لیگ کیساتھ پڑوسی ملک میں بھارت میں انڈین پریمئیر لیگ کا 18 ایڈیشن منعقد ہو رہا ہے، یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان سپر لیگ اور انڈین پریمئیر لیگ کے مقابلے بیک وقت ہو رہے ہیں، آئی پی ایل دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ لیگ ہے جبکہ پی ایس ایل کا اپنا ایک مقام ہے لیکن بھارت میں آئی پی ایل نے وہاں کی کرکٹ کو کافی مضبوط کیا ہے، وہاں کھیلنے والی تمام 10 ٹیمیں ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے میچ کھیلتی ہیں ،جب کہ اس کے برعکس پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ اور پشاور کی ٹیموں کے پاس ہوم گراونڈ کا ایڈونٹیج ہی نہیں ہے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے قبل راولپنڈی ،لاہور اور کراچی کے اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن پر چیئرمین پی سی بی سید محسن نقوی نے اربوں روپے خرچ کیے، پاکستان سپر لیگ کو 10 سال ہو چکے ہیں لیکن کھیلنے والی 6 میں سے دو ٹیموں کے پاس ہوم گراونڈ کا ایڈونٹیج ہی نہیں ہے، آئی پی ایل میں ایسوسی ایشن کو انڈین کرکٹ بورڈ اہمیت دیتا ہے، انھیں ہر میچ کی ایک معقول رقم میزبانی کے طور پر دی جاتی ہے، اس کے برعکس پی ایس ایل میں کراچی ،لاہور،راولپنڈی اور ملتان کی کرکٹ ایسوسی ایشن کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں مقامی ٹیم کراچی کنگز تماشائیوں کے اسٹیڈیم لانے کے لئے مکمل طور پر غیر فعال ہے، اس کے برعکس قذافی اسٹیڈیم لاہور میں میزبان ٹیم لاہور قلندرز محدود وسائل کے باوجود ہوم گراونڈ پر تماشائیوں کو اسٹیڈیم لانے کے حوالے سے اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے،اس بار آئی پی ایل اور پی ایس ایل ایک ساتھ ہو رہی ہے، وہاں اسٹیڈیم بھرے ہیں، یہاں خالی ہیں، اس کے پیچھے وجوہات آپ کے سامنے رکھ دی ہیں، اب آپ فیصلہ کریں، لکھی گئی یہ تمام باتیں بے بنیاد اور اہمیت نہیں رکھتیں،یا پھر ان باتوں پر یقینا توجہ دے کر اسٹیڈیم میں آنے والے شائقین کرکٹ کو آسانیاں فراہم کی جاسکتیں ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔