07 مارچ ، 2012
اسلام آباد… جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی تو گواہ کے طور پر بلائی گئی سیکریٹری کیبنٹ نرگس سیٹھی نے حلفیہ بیان قلم بند کرایا اور وزیراعظم کو بھیجی گئی دونوں سمریز کا ریکارڈ عدالت کو پیش کیا، پہلی سمری اس وقت کے سیکریٹری قانون عاقل مرزا کے دست خط سے مئی 2010ء اور دوسری ، وزیرقانون بابراعوان اور سیکریٹری قانون کے دست خطوں سے ستمبر 2010ء میں بھیجی گئی، نرگس سیٹھی نے مئی والی سمری میں سابق اٹارنی جنرل انور منصور کی رائے بھی بطور شہادت پیش کیا تو اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے سمری پر رائے یا مزید اندراج کو شہادت بنائے جانے پر اعتراض کردیا، عدالت نے کہاکہ اعتراض کو بعد میں دیکھا جائے گا، اور یکم مئی والی سمری کو دفاع کی کی شہادت نمبر 1 کا نمبر لگادیا گیا۔ سماعت کے دوران سابق چیئرمین احتساب بیورو کی سوئس حکام سے خط و کتابت کو دفاع کی شہادت نمبر 2 بناکر پیش کیاگیا جبکہ اعتزاز احسن نے 1999ء کے اٹارنی جنرل چودھری فاروق کا خط بھی بطور شہادت پیش کردیا۔ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے خط و کتابت والی دستاویز کو بطور شہادت بنانے پر اعتراض کردیا۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز اور اعتزاز کے درمیان گرما گرم سوالات و جواب ہوئے۔ اعتزازاحسن کے نرگس سیٹھی سے سوالات پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ تو جرح ہوگئی، آپ گواہ سے کراس ایگزامن نہیں کرسکتے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ میں کب کراس ایگزامن کررہا ہوں، میں نیر وکیل ہوں، مجھے اپنے طریقہ کار سے چلنے دیں۔ جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی دیکھنا ہے آپ کا سوال قانونی طور پر صحیح ہے یا نہیں۔