12 جون ، 2013
اسلام آباد…وفاقی بجٹ 2013-14ء میں وزراء کیلئے مختص صوابدیدی گرانٹ ختم کر دی گئی ہے، وزیر اعظم آفس کے اخراجات میں 45فیصد کمی ، چھوٹے کاروباری قرضوں کیلئے 20 لاکھ روپے 8فیصدمارک اپ پردینے ، پنشن میں 10 فیصد اضافہ،ترقیاتی بجٹ 340 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ سیکرٹ سروسز اخراجات ختم کردیئے گئے ہیں اب صرف قومی سلامتی سے متعلق خفیہ ادارے ہی استعمال کرسکیں گے ، پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی اور وزیراعظم کی لیپ ٹاپ اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ 5 لاکھ روپے تک قرض حسنہ دینے اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلبا کیلئے فیس ادائیگی اسکیم کی تجویزبھی دی گئی ہے، صارفین اپنے بجلی کے بل بروقت ادا کریں تاکہ بجلی کی بلال تعطل فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ قومی اسمبلی میں بجٹ 2013-14ء پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی کی فراہمی متاثر ہورہی ہے،صارفین سے اپیل کرتا ہوں کہ بجلی کے بل بروقت ادا کریں تاکہ بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ نندی پور پروجیکٹ انتہائی کم لاگت کا منصوبہ ہے جسے مجرمانہ طور پر نظر انداز کیا گیا، ہماری حکومت نے نندی پور منصوبے کو 18 ماہ میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے توازن میں بہتری لارہے ہیں تاکہ دنیا میں پاکستان کی بہترین عکاسی ہو اور دنیا ہم پر بھروسہ کرے۔ بجٹ تقریر میں کہا گیا ہے کہ ہماری منزل سوائے ترقی کے کچھ نہیں، ہم قوم سے کئے گئے تمام وعدوں کو پورا کریں گے جس کی بنیاد پر قوم نے میاں نواز شریف پر بھرپور اعتماد کیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ 5سال میں ملکی قرضوں میں 250فیصد اضافہ ہوا، قرضوں کا بوجھ سوا14 (14286) ارب روپے ہوگیا، مہنگائی کی اوسط شرح گزشتہ 5سالوں میں 13فیصد رہی، ڈالر کی قدر 60سے بڑھ کر 100تک پہنچ گئی، پانچ سال میں جی ڈی پی 3فیصد کم رہا، پانچ سال میں شرح نمو صرف ایک فیصد بڑھی، آبادی میں اضافے کی شرح 2فیصد رہی، لوڈ شیڈنگ اور سرکلر ڈیٹ جو کہ 500ارب روپے ہے حکومت کو تباہ کردے گا، پچھلی حکومتوں کی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آمدنی سے زیادہ اخراجات کا سلسلہ جاری رہا، وزیر اعظم آفس کے اخراجات میں 45فیصد کمی کی تجویز کی گئی ہے، وزیراعظم آفس کیلئے نئی کاریں نہ خریدنے کی بھی تجویز دی ہے۔ بجٹ تقریر میں کہا گیا ہے کہ پانی کی فلٹریشن کے سامان پرکسٹم ڈیوٹی کی شرح میں کمی، سگریٹ پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی دو سلیب میں ہوگی، چھوٹے کاروباری قرضوں کیلئے 20 لاکھ روپے 8 فیصد مارک اپ پردینے کی تجویز ، پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اور 1200سی سی تک ہائبرڈ گاڑیوں پر ڈیوٹی اور ٹیکس سے استثنا ، 1200 سے 1800سی سی تک ڈیوٹی اور ٹیکس میں 50فیصد رعایت جبکہ 1800 سے 2500سی سی تک کی گاڑیوں پر 25فیصد رعایت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 10 فیصداضافے اور کم سے کم پنشن 3 ہزارسے بڑھاکر5ہزارکرنے ، انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 75 ارب روپے مختص کی تجویز ہے، وزرا کیلئے مختص صوابدیدی گرانٹ جبکہ سیکرٹ سروسز اخراجات بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ یہ فنڈ صرف قومی سلامتی سے متعلق خفیہ ادارے استعمال کرسکیں گے ، پیپلزورکس پروگرام کا نام تبدیل کرکے تعمیر وطن پاکستان پروگرام تجویز کیا گیا ہے ، بجٹ میں وزیراعظم کی لیپ ٹاپ اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، 5 لاکھ روپے تک قرض حسنہ دینے، کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلبا ء کیلئے فیس ادائیگی اسکیم کی تجویزہے جبکہ ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو 10ہزار ماہانہ وظیفے کے تحت تربیت دی جائے گی، بجلی کے غیررجسٹرڈصارفین پر 5 فیصد اضافی سیلزٹیکس، غیررجسٹرڈ افراد کو دی گئی تمام قابل ٹیکس سپلائی پر مزید 2 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایس آر او کلچر کے خاتمے کیلئے چیئرمین ایف بی آر کی زیرقیادت کمیٹی تشکیل دی جائے گی، سیلزٹیکس کی شرح 16 فیصدسے بڑھاکر17فیصدکرنیکی تجویزہے، قبائلی علاقوں اورخیبرپختونخوامیں ڈیوٹی اورٹیکس میں دیا گیا ا ستثناء ختم جبکہ مقامی طور پر پیدا شدہ تیل اور درآمدی تیل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، درآمدی کینولا آئل پر400روپے فی میٹرک ٹن ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ترقیاتی اخراجات 340ارب سے زیادہ ہے اگر اسے صوبائی اخراجات سے ملایا جائے تو یہ اخراجات 1100 ارب سے زیادہ ہوں گے جس سے ترقی کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے، سرکاری Enterprises میں اصلاحات کریں گے تاکہ نقصانات کو کم کیا جاسکے۔ اس کے لئے ان اداروں میں پیشہ ور منیجرز میرٹ پر لگائیں گے۔ ان اداروں کی مالیاتی ری اسٹرکچرنگ بھی کریں گے، کمزور طبقوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کی تجویز ہے، اس سلسلے میں ہم نے 2008ء کی ابتداء میں کچھ اقدامات بھی کیے تھے مگر بعد میں اسے politisizeکردیا گیا، اب ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور رقم میں اضافہ کریں گے، اب اسے 40فیصد ارب سے 75ارب کیا جارہا ہے، اس طرح ہم سماجی تحفظ کے پروگرام کو 87فیصد سے زیادہ اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ اس کے بہتر اور درست استعمال کیلئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں، میڈیم ٹرم فریم ورک مہنگائی کو سنگل ڈیجٹ پر محدود رکھیں گے، زرمبادلہ کے ذخائر تین سال میں 11 ارب سے 20ارب ڈالر تک کردیں گے۔ ترقیاتی پروگرام سے متعلق وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ واٹر سیکٹر میں 59 ارب کے منصوبے شامل ہیں، اس میں کچھی کینال، پٹ فیڈر، منگلا ڈیم کی اونچائی میں اضافہ اور دیگر منصوبے شامل ہیں، توانائی کے اضافی پیداوار کیلئے 225ارب روپے انرجی سرمایہ کاری پر لگائیں گے، اس میں نیلم جہلم، بھاشا ڈیم، تھرکول، چشمہ پروجیکٹ، الائی کھاورمنصوبہ اور گدو پاور کی اپ گریڈیشن، ٹرانسمیشن لائن کی بہتری سمیت کئی منصوبے اس کا حصہ ہوں گے جبکہ سستی بجلی کی پیداوار اور ملک کو آلودگی سے بچانے کیلئے بھی اقدامات کر رہے ہیں، رابطہ/لنک روڈ کی ضرورت ہے جو کہ ترقی کی بنیاد ہوتی ہے اس لئے شاہراہوں کا جال بچھا کر غربت کا خاتمہ کردیں گے، گوادر کو شمالی علاقوں سے جوڑنے کیلئے چھوٹے سیکشن کی تعمیر کیلئے فوری انتظامات کر رہے ہیں جبکہ ایم 4اور ایم9پر بھی کام کریں گے۔