18 مارچ ، 2012
اسلام آباد / لندن … میمو گیٹ کے مرکزی کردار منصور اعجاز نے کہا ہے کہ صدر زرداری سے ان کی ملاقات واشنگٹن میں ہوئی تھی اس دوران بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے، منصور اعجاز نے بتایا کہ جنرل پاشا سے ملاقات کے بعد آئی ایس آئی کے بارے میں رائے تبدیل اور غلط فہمیاں دور ہوئیں، منصوراعجاز نے کہا کہ جنرل پاشا نے انہیں بتایا کہ آئی ایس آئی اور آرمی چیف چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ کمیشن نے حسین حقانی کی لندن سے بیان ریکارڈ کرانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں 26 مارچ کو اسلام آباد میں کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان دینے کی ہدایت کردی۔ منصور اعجاز نے اپنے بلیک بیری کی تفصیلات کمیشن کے سیکریٹری کے حوالے کردیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں میمو کمیشن کا اجلاس ہوا۔ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی لندن میں وڈیو لنک پر موجود تھے۔ میمو کمیشن نے منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کے اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق کے منصور اعجاز پر جرح پر اعتراض کو مسترد کردیا۔ اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے منصور اعجاز پر جرح مکمل کرلی۔ اٹارنی جنرل نے منصور اعجاز سے پوچھا کہ کیا 5 مئی 2009ء کو ان کی صدر زرداری سے نیو یارک میں ملاقات کا دعویٰ درست ہے ؟ جس پر منصور اعجاز نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری سے ان کی ملاقات نیویارک میں نہیں، واشنگٹن میں ہوئی تھی جس میں ان کے بیٹے بلاول بھٹو زراداری بھی موجود تھے۔ اٹارنی جنرل نے منصور اعجاز سے استفسار کیا کہ کیا وہ امریکی ٹی وی سی این این کیلئے بھی مضامین لکھتے رہے ہیں، منصور اعجاز نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عید کے مواقعوں پر انہوں نے سی این این کیلئے لکھا ہے۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منصور اعجاز سے سوالات کئے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے منصور اعجاز سے سوال کیا کہ امریکی حکام تک میمو پہنچانے کیلئے کیا انہوں نے صدر کی منظوری سے متعلق آزاد ذرائع سے تصدیق کی۔ منصور اعجاز نے کہا کہ میرے پاس کسی آزاد ذرائع سے اس بات کی اطلاع نہیں پہنچی کہ صدر زرداری نے منظوری دی ہو، منظوری کے حوالے سے صرف حسین حقانی کے کہنے پر پتا لگا۔حقانی صدر کے قریبی ساتھی ہیں اور اس وجہ سے ان کی بات پر اعتبار کیا۔ صدر سے اس حوالے سے براہ راست بات نہیں ہوئی کہ انہوں نے منظوری دی یا نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ وہ اپنا وقت، پیسہ اور صلاحتیں بروئے کارلاکر میمو کی حقیقت سامنے لانا چاہتے ہیں۔ جس پر منصور اعجاز نے کہا کہ رحمان ملک کی جانب سے انہیں گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے بیانات سے دنیا بھر میں ان کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچا، انہیں قتل کی دھمکیوں اور گرفتاری کے بیانات کے بعد بینکوں سے تعلقات بھی متاثر ہوئے، کاروبار زندگی معمول پر لانے کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کریں انہوں نے جو کہا وہ سچ تھا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا وہ اب حقانی کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی پیغام آگے پہنچائیں۔ جس پر منصور اعجاز نے جواب دیا کہ نہیں۔منصور اعجاز نے کہا کہ مجھے دکھ ہوا جب لوگ اتنے بڑے سچ کو چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ حسین حقانی صدر زرداری کا متبادل بننا چاہتے تھے۔ منصور اعجاز نے کہا کہ جنرل پاشا سے ملاقات کے بعد آئی ایس آئی کے بارے میں رائے تبدیل اور غلط فہمیاں دور ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملاقات سے پہلے جنرل پاشا کو نہیں جانتے تھے۔ جنرل پاشا قابل احترام شخص ہیں جو سچ کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل پاشا نے انہیں بتایا کہ آئی ایس آئی اور آرمی چیف چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ حسین حقانی نے کمیشن کو بتایا کہ وہ کمیشن کے سامنے کل ہی پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کمیشن جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچے، تاہم کمیشن نے حسین حقانی کو اسلام آباد میں کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان دینے کی ہدایت کی ہے۔ حسین حقانی کا بیان 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں کمیشن کے سامنے ریکارڈ کیا جائے گا۔ کمیشن کے سربراہ نے حسین حقانی کو منصوراعجاز کے شواہد کی تردید یا تصدیق کیلئے 3 دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے انہیں کئی بار ہدایات جاری کیں لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا، انہیں آخری موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا جواب داخل کریں۔ حسین حقانی کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی تک مکمل دستاویزات نہیں دی گئیں، جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ معاملہ آپ اور آپ کے وکیل کا ہے، آپ اپنا بوجھ بھی کمیشن پر نہ ڈالیں۔ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ کسی بھی الزامات کی تردید نہ کرنا اسے قبول کرنے کے مترادف ہے۔ میمو کمیشن کا اجلاس 26 مارچ کی صبح 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ کمیشن نے کہا کہ منصور اعجاز کے بلیک بیری کے فرانزک معائنے کے اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے گی۔