29 اکتوبر ، 2013
واشنگٹن…قومی سلامتی ایجنسی کے جاسوسی پروگرام سے متعلق آنے والی خبروں نے جہاں دنیا بھر میں ہلچل مچارکھی ہے وہاں امریکا کے اپنے ہاتھوں سے بھی طوطے اڑ رہے ہیں۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل سمیت دنیا بھر کے 36رہنماوٴں کی جاسوسی کی خبریں ٹھنڈی نہیں پڑیں تھیں کہ اسپین اور فرانس کے عام شہریوں کی جاسوسی کے انکشافات نے جلتی پر تیل کا کام کردیا ہے۔اور انہی الزامات پر امریکا سے جواب مانگنے یورپین پارلیمنٹ کے وفد نے کیپیٹل ہل کا دورہ کیا۔امریکی سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن مائیک راجر سے ملاقات میں یورپین پارلیمنٹ کے وفد میں شامل ٹیریسا بیسرل کا کہنا تھا کہ وہ یہاں اپنے شہریوں کی جانب سے واضح پیغام لائی ہیں اور وہ یہ کہ کسی قسم کی جاسوسی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ادھر اسی کمیٹی کی سربراہ ڈئین فین سٹین نے بھی جاسوسی کی کارروائیوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا اشارہ دیا ہے۔اس سارے معاملے کے حوالے سے ان کی اپنی کمیٹی کو بھی لاعلم رکھنے پر فین اسٹین نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ادھر دن بدن سنگین ہوتے حالات کو دیکھ کر امریکی سرکاربھی بیک فٹ پر آتی دکھائی دیتی ہے۔پہلے تو بذات خود امریکی صدر باراک اوباما نے جاسوسی پروگرام کا ازسرنو جائزہ لینے کا اعلان کیا۔لیکن پیر کو تو وائٹ ہاوٴس نے اس معاملے پراہم ترین فیصلے سے پردہ ہی اٹھادیا۔ترجمان جے کارنی کا کہنا تھاامریکی انٹیلی جنس اداروں اور ان کی کارروائی کو مزید محدود کیا جاسکتا ہے۔واشنگٹن ان ممالک کے تحفظات کو دور کرے گا۔امریکا کے ہاتھوں سے نکل جانے والے سی آئی اے کے سابق کانٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کے پٹارے سے نکلنے والے انکشافات امریکا کا اصل روپ دکھارہے ہیں۔