29 نومبر ، 2013
کراچی … اختر علی اختر…پاکستان کے ممتاز سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑنے کہا کہ میرا دماغی توازن درست نہیں ہے یہ کیفیت صر ف میری نہیں بلکہ تمام تخلیقی کام کرنے والوں کی ہوتی ہے ۔ میرے پاس زیادہ تر آنے والوں کی بھی دماغی حیثیت درست نہیں ہوتی ۔لکھتے وقت میرے ذہن میں کوئی خاص ترجیحات نہیں ہوتیں میں اپنے سفر ناموں میں بلکہ وجہ پنجابی کے لفظ استعمال نہیں کرتا ۔تخلیقی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے نتھیا گلی جانے کی ضرورت نہیں تخلیقی کام بدترین جگہ پر بھی ہوسکتاہے ۔ہر شخص کے ذہن میں مختلف خانے ہوتے ہیں کسی خانے میں وہ اپنی محبوبہ سے محبت کرتا ہے اور کسی خانے میں وہ بیوی اور بچوں سے محبت کرتا ہے ۔ناول لکھتے وقت میں ایک نئی زندگی بسر کرتا ہوں ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل کی جانب سے منعقد ہ چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز اپنے اعزاز میں” اعتراف کمال “میں کیا۔اس موقع پر ممتاز ناول نگارعبداللہ حسین ،رضا علی عابدی ،احمد شاہ اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے بھی اظہار خیال کیااور صاحب تقریب سے مختلف سوالات بھی کئے ۔مستنصر حسین تارڑنے مزید کہا کہ احمد شاہ کراچی میں کچھ اور ہوتے ہیں اور اسلام آباد میں کچھ اور ہوتے ہیں (اداس نسلیں )کے خالق ناول نگار عبداللہ حسن نے مجھے ٹربیوٹ پیش کیا ہے جو میرے لئے اعزاز کی بات ہے آپ سب کھڑے ہوکر عبداللہ کو اسٹینڈنگ اپیرسیشن پیش کریں سب نے کھڑے ہوکر خراج عقیدت پیش کیا اور زور دار تالیاں بجائیں۔ میرا لاہوری زیادہ تجربہ ہے یا پھر تھوڑا بہت یورپ کا تجربہ ہے ناول بہاؤ میں دریا ہے ،راکھ میں دریا ہے ،غزل شب میں دریا ہے ،یعنی دریا میری زمین میں ہمیشہ موجو د رہا ہے میرے آباو اجداد دریاکے کنارے رہتے تھے ۔چونکہ بہاؤ میرا پسندندہ ناول ہے ۔قرةالعین حیدر بہت بڑی رائٹر تھیں ان کو نوابل ایوارڈ ملنا چاہیئے ۔عبداللہ حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تارڑ صاحب کا ناول ”بہاؤ“پڑھا جسکا میں نے فلیپ بھی لکھا ۔ان کا ایک اور ناول اک غزال شب بھی بڑا زبردست ناول ہے جو میرا پسندیدہ ناول ہے ان کے کل آٹھ ناول ہیں جو ابھی مجھے ڈاکٹر ضیاء الحسن نے بتایا۔ ناول لکھنے میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے ۔میرا ذاتی خیال ہے اچھا افسانہ لکھنے کا ہنر اگر سب جانتے ہوں تو پھر وہ تخلیق کار ہوتا ہے اور افسانہ کم وقت میں رقم بھی ہوجاتا ہے مگر ناول نویسی کیلئے غیر معمولی وقت درکارہوتا ہے ناول لکھنے کیلئے بہت بڑی محنت کرنی ہوتی ہے میں نے دو تین ناول لکھے جس پر چار،چار سال لگے ہر قسم کی محنت ناول لکھنے پر ہوتی ہے ۔ مستنصر حسین تارڑنے ناول نویسی کیلئے دماغی ،ذہنی ،نفسیاتی اور تجرباتی محنت کی ہے اور جسکا رزلٹ ان کے ناولو ں کو پڑھنے والے بے شمار قارئین ملک و بیرون ملک موجود ہیں ۔تارڑ صاحب ناول نویسی کے علاوہ متفرق کام بھی دیگر بڑی خو بی سے کرتے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ اور متعدد ملکی وغیر ملکی ایوارڈ ،تعریفی اسناد ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔