30 نومبر ، 2013
کراچی …اخترعلی اختر …معروف سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ اخلاق احمد مشاہد ے کا آدمی ہے ۔ ان سے میر ی 40سالوں سے بہت پرانی دوستی ہے جس کے بیچ ہمارے رابطے بہت پکے رہے میں ان کی کہانیاں اور افسانے پڑھتا رہا ہوں اکثر ایسالگا کہ وہ اخلاق احمد نہیں جن کو میں جانتا ہوں کا فی دیکھ بھا ل کے بعد میں نے مان ہی لیا ا ور اب میں چاہتا ہوں جسے میں نے ماناہے اخلاق احمد ویسا ہی رہے ۔اور اسی طرح کہانیاں اور افسانے لکھے ۔میں اب کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں قطعی بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ان خیالات کا اظہار آرٹس کو نسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں معروف افسانہ نگار اخلاق احمد کی کتاب ابھی کچھ دیر باقی ہے کی کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پروسعت اللہ نے کہاکہ اخلاق احمد کے مجموعہ کے دیپاچے میں وہ کہتے ہیں کہ افسانہ ابلاغ کے بغیر کیا ہے ایک حسین دھن جسے کوئی سن نہ سکا۔میں 34برس سے اخلاق احمد کو جانتا ہوں ۔ان کے چاروں افسانوں مجموعے پڑھ کر سوچاکہ کاش اخلاق احمد کبھی تو افسانہ لکھ سکیں بس و ہ تو اپنے اندر اترتی ہوئی کہانی کو اسطرح پیش کرتے ہیں کہ اصل کا گمان ہوتا ہے ۔پورے 9برس کے بعد اخلاق کا یہ مجموعہ سامنے آیاہے جسے پڑھ کر انہیں مزید جان گیا ہوں ۔آپ جب چاہیں اخلاق احمد سے بات کرکے دیکھ لیں ۔تو بے حد بے ضرر و نظر آئے گا اخلاق مارکیٹنگ کا آدمی ہے جو عموعا ہمدرد ہوتے ہیں اگر آپ کے پاس خود کو پہنچانے اور جانے کا وقت ہوتو ملاقات کرکے دیکھیں ۔صاحب کتاب اخلاق احمد نے کہا کہوسعت اللہ خان اور تارڑ صاحب کے بعد کچھ کہنے کی امید تونہیں رہتی پھربھی میں یہ تین سطریں کہوں گا افسانوں کے اس مجموعے میں جوہے اُس کے معیار کا فیصلے کرنا،کب اور افسانہ نگاروں کی طرح معمہ انسان کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں ۔پروفیسر اوج کمال نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔