24 دسمبر ، 2013
ممبئی… کئی دہائیوں تک فلمی دنیا پر راج کرنے والے گلوکار محمد رفیع نے جب جب جو گایا امر ہو گیا،لڑکپن سے آخری سانسوں تک اپنی آواز کے جادو سے ہر ایک کو مسخر اور مسحور کئے رکھا۔ان کا مشہور گیت ”زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات“ آج بھی لوگوں کو ان کی یاد دلاتا ہے۔ گلوکار محمد رفیع 24 دسمبر 1924ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتداء میں اپنے ہم عصر میوزک ڈائریکٹر جن میں نوشاد علی کا نام سرفہرست ہے کے ساتھ کام کیا۔ 1950ء سے 1960ء تک کے عرصے میں انہوں نے او پی نیر، شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن اور روشن کے ساتھ بھی کام کیا۔ مدن موہن بھی انہی لوگوں میں شامل تھے جنہیں رفیع کی آواز بے حد پسند تھی۔ مدن موہن کے ساتھ 1950ء میں فلم ”آنکھیں“ کا گیت ”ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے“ بھی کیا۔ اس کے علاوہ مشہور ”یہ دنیا یہ محفل“ جیسا گیت بھی گایا۔ رفیع نے اپنی زندگی میں متعدد ڈوئین بھی گائے جس میں سب سے زیادہ تعداد فیمل ڈوئٹس میں لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کے ساتھ گائے۔ رفیع کے کیریئر میں یوں تو کئی گانوں نے شہرت حاصل کی مگر 1970ء میں بننے والی فلم ”دی ٹرین“ کا گانا ”گلابی آنکھیں“ کو بہت پذیرائی ملی۔ 1974ء میں بہترین گلوکار کا ایوارڈ جیتا۔ 1977ء میں فلم فیئر اور نیشنل ایوارڈ مشہور گیت ”کیا ہوا تیرا وعدہ“ فلم ”ہم کسی سے کم نہیں“ پر جیتا۔ 1977ء میں فلم ”امر، اکبر، انتھونی“ میں قوالی ”پردہ ہے پردہ“ گا کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ رفیع کا انتقال31 جولائی 1980ء کوہوا۔ گلوکارمحمد رفیع کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جن پر موسیقی ناز کرتی ہے، ان کی آواز آج بھی ہرطرف سر بکھیر رہی ہے۔مدھر ،رسیلی اور سحر انگیز گائیکی کا جب ذکر آئے گا تو اس کا تاج برصغیر کے اس عظیم گلوکار کے سر ہی سجے گا جسے دنیا محمد رفیع کے نام سے جانتی ہے۔اپنی گائیکی سے ایک جہاں کو اپنا گرویدہ بنانے والے محمد رفیع آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ایک حسیں یاد بن کر زندہ ہیں۔محمد رفیع 31 جولائی 1980 کو ہارٹ اٹیک کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔