18 فروری ، 2014
لاہور…لاہور کے علاقہ جوہر ٹاوٴن جس میں3 بچوں، دو خواتین اور تین سگے بھائیوں سمیت 8افراد کابہیمانہ قتل ہوا ہے۔ یہ ذاتی رنجش کا شاخسانہ ہے یا کوئی اور محرکات بھی ہیں ۔ ای ون کے پانچ مرلے گھر کے اس افسوسناک واقعے کی ابتدائی تفتیش کے مطابق زاہد اور شاہد اپنی بیویوں نسیم زاہد ،فرزانہ شاہد ،تین بچوں اور کینسر میں مبتلاء بھائی نذیر کے ساتھ اس گھر میں رہائش پذیر تھے۔زاہد پیشے کے لحاظ سے پروفیسر ،شاہد این ایچ اے میں ٹھیکیدار نذیر کینسر کے باعث بے روزگار تھا جسیماضی میں جوئے کی لت بھی رہی۔ وقوعے پردو نوں خواتین کی لاشیں بیڈ رومز ، بچوں کی ٹی لاونج اورزاہد اور شاہد گھر کے شروع کے ایک چھوٹے کمرے میں جبکہ نذیر کی لاش اوپر والی منزل میں تھی۔قتل کرتے ہوئیہتھوڑے مارے گئے، گلے کاٹے گئے ۔جائے واردات سے ایمونیم نائٹریٹ بھی ملا ، جس سے لاشوں کو پگھلایا جا سکتا ہے۔ایک مقتولہ عورت کے ہاتھ میں کسی مرد کے بال بھی ملے ہیں۔شواہد بتاتے ہیں کہ ایک شخص نے مزاحمت بھی کی،واردات کے بعد دروازہ کھلا چھوڑ دیاگیا۔مقتولین کا ایک بھائی واجدوکیل اور واپڈا ٹاون کا رہائشی ہے اسکا کہناہے کہ ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ اس واردات میں وہی انداز استعمال ہواجو گیارہ سال قبل 25ستمبر 2003 کو نگینہ خانم کے خاندان کے اجتماعی قتل میں ا پنایا گیا ۔یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ قتل ہونے والے ایک بھائی کا کسی لڑکی سے تعلق یا دوستی تو نہیں تھی۔ کیا کسی لڑکی کے دوسرے عاشق یا کسی رشتے دار نے تو یہ واردات نہیں کی ؟دیرینہ دشمنی اور لڑکی کے معاملے پر تو تفتیش جاری ہے۔کینسر کے مریض کی لاش سے ملنے والے شواہد سے ایک اہم سوال یا نکتہ یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا قاتل ان مقتولین میں سے تو نہیں۔