20 مارچ ، 2014
لندن…متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ میں نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں کہاتھا کہ حکمرانوں کو ماضی کی غلطیاں دہرانے سے گریز کرنا چاہیے اوردوسروں کے مفادات کی جنگ میں پاکستان کونہیں جھونکناچاہیے۔ ملک اورمسلح افواج کاپہلے ہی بہت نقصان ہوچکاہے اور ایک محب وطن کی حیثیت سے میں یہ قطعی نہیں چاہوں گا کہ ہم آج کسی بھی ایسے معاملے میں شامل ہوں جس کے نتائج ملک نسل در نسل بھگتتا رہے ۔یہ بات انہوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن اورمختلف شعبہ جات کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ اجلاس میں مختلف شعبہ جات کے ذمہ داران بھی شریک تھے ۔ اپنے خطاب میں الطاف حسین نے کہاکہ جب کسی تباہ حال معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں اوربرائیوں کے خلاف کوئی صدائے حق بلند کرتا ہے اورمعاشرے کوگندگی سے پاک کرکے ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کی جدوجہد کرتا ہے تواسٹیٹس کو، کوبرقراررکھنے والے ظالم وجابر حکمراں اس آوازحق کو کچلنے کیلئے ہرقسم کاحربہ استعما ل کرتے ہیں، ہرجانب سے آواز حق کی مخالفت کی جاتی ہے اور صدائے حق بلند کرنے والی کی راہ میں رکاوٴٹیں کھڑی کی جاتی ہیں،لیکن سازشوں کے باوجود صدائے حق بلند کرنے والے جواپنے نظریہ میں سچے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں حق پرستی کی جدوجہد میں توانائی اور ثابت قدمی عطا کرتا ہے اورپیغام حق آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ اس کاثبوت گزشتہ روز ایم کیوایم کا 30 واں یوم تاسیس آزادکشمیر، گلگت اور بلتستان سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں کے 37 شہروں میں منایا گیا۔انہوں نے کہاکہ اس کنونشن میں، میں نے بعض حقائق بیان کیے تھے جس پر باطل قوتیں یکجا ہوکر میرے بیان کردہ سچ کے خلاف متحد ہوگئیں۔ بعض شرپسند عناصر میرے خطاب میں سے اپنے مطلب کے جملے نکال کر عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں اورآج پاکستان کے ٹی وی ٹاک شوز کے شرکاء کی اکثریت یک زبان ہوکر ایم کیوایم پر تبریٰ بھیج رہی ہے ۔ ان کی جانب سے مجھ پر الزام عائد کیاجارہا ہے کہ الطاف حسین نے فوج کو بغاوت کرنے کی دعوت دی ہے جوکہ ایک بہتان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، میری تقریر ریکارڈ پر موجود ہے اس کا ایک ایک جملہ اور ایک ایک لفظ اگر غورسے سنا جائے تو ہرفرد اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ میں نے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے ۔ ماضی میں پاکستان ، سپرطاقتوں کی جنگوں میں استعمال ہوتا رہا ہے ، ابھی پاکستان،افغانستان میں ، دہشت گردی کی اس پرانی دلدل سے نہیں نکل پایا تھا کہ حکمراں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے دوبارہ پراکسی وار کیلئے اپنے فوجی کبھی اردن، کبھی صومالیہ اور کبھی کسی اور ملک میں بھیجتے رہے ، میں باربار منع کرتا رہا ہوں کہ مالی مفادات کے عوض پاکستان کی مسلح افواج کو کرائے کی فوج نہ بنایا جائے اور اگر پاک فوج کو اسی طرح دوسرے ممالک کیلئے استعمال کرنے کی روش ختم نہ کی گئی توغیروں کی جنگ میں کودنے کا عمل خدانخواستہ پاکستان کی تباہی پر منتج ہوگا۔ اگر حکمراں کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے قتل کیلئے جنگی سازو سامان اور مسلح لشکر بھیجنے کے احکامات دیں تو ایسی صورت میں مسلح افواج کو حکومت کے ایسے احکامات ماننے سے انکار کر دینا چاہئے ، میر ی اس بات پر بعض عناصر کی جانب سے واویلا مچا یا جارہا ہے ۔انہوں نے مثالیں پیش کر تے ہوئے کہا کہ زاہد اختر بنام حکومت پنجاب کے کیس میں سپر یم کورٹ کے فیصلے PLD 1995میں کہاگیاہے کہ قانو ن کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ایک سرکاری ملازم کو اپنے حکام بالا کے غیر قانونی احکامات کو نہیں ماننا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ استحصالی طبقہ کو تو میر ی باتیں بر ی لگ رہی ہیں لیکن مجھے یہ بھی علم ہے کہ ملک کے غریب ومتوسط طبقہ کے عوام اور محب وطن طبقات کو میری باتیں پسند آرہی ہیں ۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالی پاکستان کو ان امتحانات میں سرخ رو کرے جن سے وہ گزر رہا ہے اور اسے قائم و دائم رکھے ۔