پاکستان
24 اپریل ، 2014

جیو کے حریف فوج کی تنقید کی حمایتکرنے لگے، میڈیا کمیونٹی تقسیم

کراچی…محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار”وال اسٹریٹ جرنل“ لکھتا ہے کہ پاکستانی فوج نے حکومت سے ملک کے ٹاپ ریٹڈ ٹی وی چینل جیو نیوز کو بند کرنے کامطالبہ کیاہے۔ یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب جیو نیوز کے معروف ٹاک شو کے میزبان حامد میرپر فائرنگ کی گئی گولیاں لگنے کے بعد حامد میر کے بھائی کے ریمارکس کوجیونیوز نے نشر کیا۔انہوں نے اس حملے کا الزام جاسوس ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) پرلگایا۔فوج نے ان الزامات کوئی بنیاد نہ ہونے پر تردید کی اور وزارد دفاع کے ذریعے ریگولیٹر کو ٹی وی کمپنی کے لائسنس واپس لینے کا کہا ہے۔ جیو کے حریف ٹیلی ویژن چینلز فوج کی تنقید کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں،اس معاملے پر میڈیا کمیونٹی تقسیم ہے۔طویل فوجی غلبے کے بعد 2008میں پاکستان میں جمہوری دور بحال ہوا، لیکن سویلین حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں تناوٴ ہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان تنازعات میں سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ اور وزیر اعظم کی طرف سے پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوشش ہے۔اس اضطراب میں آرمی سربراہ جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔انہوں نے قومی سلامتی پرآئی ایس آئی کے کردار کو سراہا اور دفاع کو مضبوط بنانے اور افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کو سراہا۔پاکستان کے بہترین نیوز اینکر کے نام سے پہچان رکھنے والے حامد میر پاکستانی طالبان کی ہٹ لسٹ میں سر فہرست ہیں۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں درجنوں صحافی قتل کردیئے گئے ہیں، ان میں زیادہ تر دور دراز علاقوں میں یا غیر واضح نامہ نگار تھے۔ پہلی بار پاکستان کے ٹاپ اینکر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔معروف نیوز اینکرطلعت حسین کا کہنا ہے کہ حامد میر پر حملے کے بعد ایک فضول بحث شروع ہوئی حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کی بجائے حکام اور میڈیا آپس میں الجھنے میں مصروف ہے۔ممکنہ قتل کے لئے ایک نفسیاتی حد تجاوز کر گئی ہے کوئی صحافیوں کو پھانسی چڑھانا چاہتا ہے ، تواب اس الجھن میں مثالی وقت ہو گا۔اخبار لکھتا ہے کہ حکومت اور فوج میں مشرف پر غداری کے مقدمے پر کشیدگی ہے ۔قانون سازوں اور فوجی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت پرصدر مشرف کو ملک سے باہر جانے کے لئے فوج دباوٴ ڈال رہی ہے۔بعض ذرائع ابلاغ اور فوجی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد آئی ایس آئی کے خلاف الزامات لیفٹیننٹ جنرل اسلام کی تصویر کے ساتھ نشر کیے گئے۔نواز شریف کے معاون نے مزید کہا کہ یہ تاثر احمقانہ ہے جوسویلین حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کومزید زہر آلودہ بنا رہا ہے۔ جیو مالکان کا کہنا ہے کہا کہ انہوں نے آئی ایس آئی پرکوئی الزام نہیں لگایا۔اخبار کے مطابق تمام حالیہ برسوں میں صحافیوں کے قتل میں عسکریت پسندوں ، فوج اور سیاسی پارٹیوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔2011میں صحافی سلیم شہزاد کو اسلام آباد میں اغوا اور تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار گیا،اس کا ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق نے آئی ایس آئی اور دیگر عسکری برانچوں پر الزام عائد کیا،اس کی عدالتی تحقیقات بے نتیجہ رہی۔2011 میں صحافی ولی خان بابر کے قتل کا الزام کراچی کی سیاسی جماعت پر لگایا گیا مگر پارٹی نے اس کی تردید کر دی۔نیویارک کی کمیٹی ٹو پروٹیکشن جرنلسٹ کا کہنا ہے ۔ پاکستان صحافیوں کے لئے چھٹا مہلک ملک ہے ،فرائض ادا کرتے ہوئے 54صحافی جان سے گئے 24صحافیوں کی موت کی وجوہ واضح نہیں ہوئی۔طالبا ن نے بھی حامد میر پر حملے کا الزام آئی ایس آئی پر لگایا ہے۔

مزید خبریں :