پاکستان
28 مئی ، 2014

تہہ تک پہنچنا ہے کہ دارالحکومت کے دل میں عدلیہ مخالف بینرکیسے لگے: سپریم کورٹ

تہہ تک پہنچنا ہے کہ دارالحکومت کے دل میں عدلیہ مخالف بینرکیسے لگے: سپریم کورٹ

اسلام آباد … سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہیکہ اس بات کی تہہ تک پہنچنا ہے کہ دارالحکومت کے دل میں عدلیہ مخالف بینرز کیسے لگائے گئے، تفتیش غیر جانب دارانہ ہو، کسی بے گناہ کو نہ پکڑا جائے۔ اٹارنی جنرل نے رپورٹ پیش کی کہ 3 ملزمان کو پکڑا گیا ہیاور بینرز ہٹا دیے گئے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے آئی ایم سی اور متفرق درخواستوں کی سماعت کی ، اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نیعدلیہ مخالف بینرز سے متعلق وزارت داخلہ اور ڈی جی آئی بی کی رپورٹس پیش کیں جس میں کہا گیا ہے کہ بینرز پینٹ کرنے والے ایک شخص اور لگانے والے دو افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے،، اسلام آباد میں لگائے گئے بینرز ہٹا دیے گئے ہیں جب کہ مختلف انجمن تاجران نے بینرز سے اظہار لاتعلقی کیا ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اس مہم کو عدلیہ کے خلاف سمجھتے ہیں، انہیں کچھ مزید وقت دیا جائے تا کہ تفتیش مکمل ہو سکے اور کچھ اور ملزمان کو حراست میں لیا جا سکے جن کے بارے میں معلومات سامنے آئی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی تضحیک والے پروگرام پر کیا کیا گیا ہے ، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پیمرا نے قانون کے مطابق اے آر وائی کونوٹس جاری کر دیا ہے۔بعد میں عدالت نے حکم جاری کیا کہ اٹارنی جنرل کے نوٹس میں منگل کو یہ معاملہ لایا گیا تھا کہ کچھ میڈیا اس بات کے درپے ہیں کہ ملک کے ادارے اپنا کام نہ کر سکیں اور وہ اداروں سے غلط بیانات منسوب کرتے ہیں ، اٹارنی جنرل کو ایک پروگرام کا اقتباس بھی دیا تھا اور معاملے کی چھان بین کرنے کا کہا تھا، اٹارنی جنرل نے بتا دیا ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ہو رہی ہے۔ عدالتی حکم مین کہا گیا ہے کہ ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں پرا تھا کہ دی نیو ز اور جنگ اخبار نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے منسوب ایک ریمارک شائع کر دیا ، اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ نہ تو ایسا کوئی ریمارک عدالت کی طرف سے دیا گیا اور نہ کسی اور اخبار نے شائع کیا۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ آزادی صحافت کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ آزادی غیر ذمہ دارانہ استعمال ہو بلکہ عدالت نے تجویز کیا ہے کہ ضابطہ اخلاق بننا چاہیئے اور اس کا اطلاق ہونا چاہیئے تا کہ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ ، اخبارات یا ٹی وی پر نہ ہو سکے ، اٹارنی جنرل معاملہ حکومت کے نوٹس میں لائیں اور سنجیدگی سے قواعد و ضوابط بنانے کے بارے میں سوچیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ان کی خواہش ہے کہ صرف عدالتی فیصلے شائع کیے جائیں، عدالتی کارروائی نہیں۔ کیس کی مزید سماعت 10 جون کو ہو گی۔

مزید خبریں :