12 اپریل ، 2012
اسلام آباد…پارلیمنٹ نے قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی،قومی سلامتی کمیٹی کے چیئر مین رضا ربانی کی جانب سے پیش کی جانے والی سفارشات پارلیمنٹ نیقومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پرکی سفارشات کی منظوری دی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سفارشات پیش کرتے ہو ئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سفارشات میں ملکی سلامتی اورخود مختاری کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، امریکا سے سلالہ چیک پوسٹ حملے پر معافی مانگنے، آئندہ ایسا واقعہ نہ ہونے کی یقین دہانی اور ڈرون حملے بند کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ سفارشات کے مطابق پاکستانی سرزمین پر امریکی فوجیوں ، نجی سیکیورٹی کنٹریکٹرز اور ایجنٹس کی موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔پاکستان کی خودمختاری پرسمجھوتانہیں کیاجائیگا،امریکا سے تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہئیں۔ آزاد خارجہ پالیسی کے اصولوں کو سختی کے ساتھ لاگو کیا جانا چاہیئے،امریکا کی پاکستان میں موجودگی کا ازسر نو جائزہ لیا جائے،پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے فوری طور پر بند کیے جائیں، کسی بھی بہانے پاکستان کی علاقائی حدود میں دراندازی یا جارحیت نہ کی جائے ،پاکستان کی فضائی یا زمینی حدود افغانستان میں اسلحہ اور بارود کے لیے استعمال نہیں کی جانی چاہیئے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، امریکا اور دیگر ممالک بھارت کی طرز پر پاکستان کے ساتھ بھی سول نیو کلیئر معاہدہ کریں ،میزائل پروگرام سے متعلق پاکستان کے موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے عزم پر قائم ہے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ قابل مذمت ، عالمی قوانین اور پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے ،حکومت پاکستان امریکا سے نیٹو کی جارحیت پر غیر مشروط معافی طلب کرے ،سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ،پاکستان کو یقین دہانی کرائی جائے کہ آئندہ ایسے حملے نہیں کیے جائیں گے، وزارت دفاع اور پاک فضائیہ کو سرحدوں کے ساتھ ملحق علاقوں کے لیے نئے فضائی رولزمرتب کرنے چاہئیں ۔ کسی بھی غیر ملکی حکومت یا اتھارٹی کے ساتھ ملکی سلامتی سے متعلق کوئی زبانی معاہدہ نہیں کیا جائے گا ،پہلے سے موجود ایسے تمام معاہدییا سمجھوتے فوری طور پر معطل کیے جائیں۔ پاکستان میں کسی بھی قسم کے آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی ،فوجی آپریشن اور لاجسٹک سے متعلق کوئی بھی معاہدہ وزارت خارجہ یا متعلقہ وزارتوں میں جائزے کے لیے پیش کیا جائے، تمام معاہدوں کی وزارت قانون و انصاف اور پارلیمانی امور سے منظوری لی جائے، یہ تمام معاہدے قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیے جائیں گے،کمیٹی معاہدوں کی منظوری دے گی اور اپنی سفارشات کے ساتھ وفاقی کابینہ میں پیش کرے گی،متعلقہ وزیر معاہدے سے متعلق دونوں ایوانوں میں پالیسی بیان دے گا۔ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جانی اور اقتصادی نقصانات کا اعتراف کرنا چاہیئے،پاکستان کی برآمدات کو امریکا اور نیٹو ممالک میں زیادہ سے زیادہ مارکیٹ رسائی دینی چاہیئے۔ کوئی پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹر اور انٹیلے جنس آپریٹو کو پاکستان میں کام کی اجازت نہیں ہو گی ،پاکستان کی حدود کسی بھی غیر ملکی بیسز کے لیے فراہم نہیں کی جائے گی ۔افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے،مذاکرات اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے ، جس میں مقامی رسم و رواج ، اقدار اور مذہبی عقائد کا احترام کیا جائے۔پاکستانی سرزمین کسی بھی ملک پر حملے کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی ،اگر غیر ملکی جنگجو پاکستان میں موجود ہیں تو انہیں نکال دیا جائے،پاکستان بھی توقع رکھتا ہے کہ دوسرے ممالک کی سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ حکومت عوامی توقعات کے مطابق خارجہ پالیسی کے اہم نکات کا جائزہ لے ،نئی خارجہ پالیسی کو اپنے روایتی اتحادیوں سے روابط اور نئے تعلقات کے ساتھ متوازن کیا جائے ، یہ پالیسی خطے میں امن کے قیام پر گامزن رہنی چاہیئے ،بھارت کے ساتھ مذاکرات باہمی احترام پر مبنی ، نتیجہ خیز اور بامقصد ہونے چاہئیں ،جموں و کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے بھی کوششیں کی جانی چاہئیں جب کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہئیں،چین کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کوہر شعبے میں مزید مضبوط بنانا چاہیئے ،یورپی یونین اور روسی فیڈریشن کیساتھ تعلقات کو بھی مضبوط بنانا چاہیے،افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رہے گی ،اسلامی دنیا کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کو بھی اہمیت دینی چاہیے ،پاکستان کو ایران ، ترکمانستان کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبوں پر فعال طریقے سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان سفارشات پر اصل روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔