29 جولائی ، 2014
کراچی…محمد رفیق مانگٹ....... امریکی اخبار’’واشنگٹن ٹائمز‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز کو فراہم کیے جانے والے 43فی صد امریکی ہتھیار پنٹاگون کے ڈیٹا بیس سے غائب ہیں۔ ڈیٹا بیس سے غائب دو لاکھ چالیس ہزار ہتھیار کس کے پاس ہیں پنٹاگون اس کا پتا چلانے میں ناکام ہو گیا، امریکا کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ لاپتہ ہتھیار افغان جنگجوؤں، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں، بلیک مارکیٹ یا کسی دشمن ملک کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پنٹاگون کی طرف سے62کروڑ60لاکھ ڈالر کے افغان فورسز کو فراہم کردہ آتشیں ہتھیاروں میں 43فی صد کا کوئی اتا پتا نہیں۔ گزشتہ عشرے کے دوران پینٹاگون نے مختلف قسم کے7لاکھ47ہزار ہتھیار افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کو فراہم کیے جن میں رائفلیں، پستول، مشین گنیں، گرینیڈ لانچر ز اور شارٹ گن جیسا اسلحہ شامل ہے۔ ڈیٹا بیس میں447823سیریل نمبرتک ریکارڈ موجودہے جب کہ مجموعی ہتھیاروںکا 43فیصد جو203888ہتھیار بنتے ہیں وہ ڈیٹا بیس سے غائب ہیں۔ان میں 24520ہتھیاروں کے سیریل نمبر ڈیٹا بیس میںایک سے زائد بار درج کیے گئے جب کہ 50304سیریل نمبر کی کوئی شپنگ یا وصولی تاریخ موجود نہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ ان ہتھیاروں کے ٹریکنگ کا نظام غلطیوں سے بھر پور تھا،مستقبل قریب میں اگر پینٹاگون ٹریکنگ نظام کے مسئلے کو حل نہیں کر تا تو یہ ہتھیار افغان جنگجوؤں یا پاکستانی عسکریت پسندوں کے پاس جا سکتے ہیں۔ حکام کے مطابق امریکا کے افغانستان کے سیکورٹی تعلقات اچھے ہیں لیکن تشویش ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز کا کوئی اہلکار ان ہتھیاروں کو ایسے افراد کے ساتھ تبادلہ کرسکتا ہے جن سے نہیں کرنا چاہیے۔ حکام نے کہا کہ اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے کیونکہ امریکی انخلاء کے بعد افغان فورسز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد فورسز کو ترک کرسکتی ہے۔ اخبار نے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے ایک خصوصی انسپکٹر جنرل رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ پنٹاگون نے ان ہتھیاروں کے ٹریک کو کھو دیا ہے۔افغانستان کو جو ہتھیار فراہم کیے جاتے تھے اس کے لئے پنٹاگون کے پاس قابل اعتماد لاجسٹک نگراں ڈیٹا بیس اور سیکورٹی تعاون معلومات پورٹل جیسے دوبنیادی نظام تھے جو ان ہتھیاروں سے پنٹاگون کو باخبر رکھتے تھے۔ وہ غلطیوں سے بھرے ہوئے تھے، لہٰذا افغانستان فورسز کو دیا جانے والا40فی صد سے زائدمہلک ہتھیاروں کی تلاش کرنا اب پنٹاگون کے بس میں نہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی نشان دہی نہیں کی گئی کہ وہ ہتھیار پاکستان یا دیگر ہمسایہ ممالک میں چلے گئے ہیں۔ سینئر آڈٹ مینجر جیفری کا کہنا ہے کہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ وہ ہتھیار بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو جائیں گے، عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں یا کسی دوسرے ملک کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔