پاکستان
18 اگست ، 2014

انتظامیہ اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی حلف کے مطابق چلنا ہے،سپریم کورٹ

انتظامیہ اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی حلف کے مطابق چلنا ہے،سپریم کورٹ

اسلام آباد.....ممکنہ ماورائے آئین اقدام روکنے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر عدالت نے وفاق سے جواب طلب کرلیا ہے اور اٹارنی جنرل کو تمام دستاویزات کے ساتھ جامع جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ انتظامیہ اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی اپنے حلف کے مطابق چلنا ہے، ایم این اے نے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہئے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزار نے عمران خان کے سول نافرمانی بارے بیانات کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرایا اور موقف اختیار کیا کہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے، سیاسی جماعت کی جانب سے سول نافرمانی کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے جو غیر آئینی ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت حلف اٹھایا ہےاور اس کے تحفظ کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔کیا ممکن ہے کہ آرٹیکل 5 اور 6 کی موجودگی میں کوئی ماورائے آئین اقدام ہو۔ درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت آئین سے وفاداری ہر شہری کے لیے لازم ہے ۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام ادارے وفاق کے ماتحت ہیں، انہیں علیحدہ سے نوٹس دینے کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے لاہور ہائی کورٹ بار کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کو بھی آئندہ سماعت پر مقرر کرنے کا حکم دیا۔ درخواست گزار کے وکیل شفقت چوہان نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا بیان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انتظامیہ اور ارکان پارلیمنٹ نے بھی اپنے حلف کے مطابق چلنا ہے۔ آئین کو سامنے رکھ کر حکم جاری کریں گے۔ ایم این اے نے حلف کی خلاف ورزی کی ہے تو پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہئے۔ ہر چیز عدالت نے نہیں کرنی۔ ہم یہاں 5 ججز بیھٹے ہیں اور سپریم کورٹ کے 17 ججز ہیں، ان کے پاس ایک چھڑی بھی نہیں، صرف اخلاقی اتھارٹی ہے۔ کیس کی مزید سماعت 20 اگست کو ہو گی۔ سماعت کےبعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسویس ایشن کے صدر کامران مرتضی نےکہاکہ اس درخواست کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ لاہور ہائي کورٹ کے صدر شفقت چوہان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملکی حالات دیکھتےہوئے اپنے طورپر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کافیصلہ کیا۔

مزید خبریں :