11 ستمبر ، 2014
کراچی...... امریکہ میں تیرہ سال پہلے آج کے دن ہونے والے حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں شروع جنگ کے بارے میں اب بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ختم ہوچکی ہے یا ابھی چل رہی ہے لیکن پاکستان میں اس جنگ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی شدت پسند تنظیمیں اپنی بقا کی جنگ سے دوچارہیں۔ آج سے 13سال قبل امریکا میں حملوں کے بعداس نے اتحادیوں کے ساتھ مل کرافغانستان پرحملہ کیااورپاکستان نے بھی اس کا ساتھ دیا توخود پاکستان میں شدت پسند ی نے جنم لیا اورتحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ان تنظیموں نے اس عرصے کے دوران پورے پاکستان میں عسکری، سویلین اورہرطرح کے اثاثوں کونشانہ بنایا لیکن تاریخ کے اس اہم موڑپرٹی ٹی پی کے نام سے یہ تنظیم اندرونی اختلافات، دھڑے بندی اورمختلف مسائل سے دوچارہے۔ اس کے اندرونی اختلاف ہی کی وجہ سے اس کے سینکڑوں اہم لوگ اورعام جنگجوگزشتہ کچھ عرصے کے دوران نشانہ بنتے گئے۔اندرونی اختلافات کے علاوہ حکومتی آپریشنزنے بھی اس تنظیم کوقابل ذکرنقصان پہنچایا اورآج یہ حالت ہے کہ یہ اپنی نئی صف بندی کرنے کی سرتوڑکوشش کررہی ہے جس میں اسے اندرونی توڑپھوڑ کا سامنا ہے اوراب ملافضل اللہ کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کواپنے ہی ناراض ساتھیوں پرمشتمل ایک بڑے دھڑے جماعت الاحرارپاکستان کا سامنا ہے۔ دوسری جانب جنوبی وزیرستان اورپنجابی طالبان بھی ناراض ہیں جوتنظیم کی موجودہ شکل اورحالت کے بارے میں کافی شکایات رکھتے ہیں تاہم ایک حقیقت بڑی واضح ہے کہ اس اہم موڑپرتنظیم کواپنی بقاکی جنگ درپیش ہے۔