پاکستان
23 جنوری ، 2015

اناپرستی نظم وضبط کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے، الطاف حسین

اناپرستی نظم وضبط کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے، الطاف حسین

کراچی......متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ اناپرستی شیطانی صفت ہے جونہ صرف دوافرادکے ملاپ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ قوموں کے درمیان اتحادویکجہتی اورنظم وضبط کی راہ میں بھی رکاوٹ ہوتی ہے ،اناپرستی ہی ملکوں اورقوموں کی تباہی وبربادی کا سبب بھی بنتی ہے ۔ انہوں نے یہ بات لال قلعہ گراؤنڈعزیزآبادمیں ایم کیوایم کے تنظیمی ذمہ داروںکو ’’ انا پرستی ‘‘ کے موضوع پر دیئے گئے ایک تفصیلی لیکچر میں کہی۔جسمیں اراکین رابطہ کمیٹی ، سینیٹرز، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی، تنظیمی شعبہ جات ، سندھ بھرکے تمام زونوں اورکراچی کے سیکٹرانچارجزاورزونل وسیکٹرزکمیٹیوں کے ارکان نے شرکت کی ۔ اپنے تفصیلی لیکچرمیں الطاف حسین نے اناپرستی کے مختلف پہلوؤںپرروشنی ڈالی۔اس کے ساتھ ساتھ اناپرستی کے انسانی زندگی اورمعاشرے پر اجتماعی طورپر پڑنے والے منفی اثرات، تحریکوں کے نظم وضبط اورکامیابی کیلئے اناپرستی کے خاتمہ اور غوروفکر کی اہمیت پرتفصیلی اظہارخیال کیا اورکہاکہ غوروفکراورسوچ وبچارکاعمل ذہن کے سوئے ہوئے خلیوںکوبیدارکرنے اوران پرلگے ہوئے تالوں کو کھولنے کیلئے چابی کاکام دیتاہے ۔جاننے ، تلاش کرنے اورکھوجنے کی جستجوانسانی فطرت کاحصہ ہے ۔الطاف حسین نے کہاکہ سرکاردوعالمؐ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ قرآن مجید کی آیت ’’ اقراء باسم ربک الذی خلق ‘‘ ہے جس کاترجمہ ہے، ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیداکیا ‘ ‘۔ اس آیت کے پہلے لفظ ’’ اقراء ‘‘ کے لغوی معنی اگرچہ ’’ پڑھ ‘‘ کے ہیں لیکن اس کامفہوم یہ ہے کہ جانو، سیکھو، تلاش کرو،غوروفکرکرو۔اقراء کے اس لفظ میں دعوت خداوندی یہ ہے کہ چاہے تم نے جتنابھی پڑھا ہولیکن پھربھی پڑھو اوراپنے آپ کومکمل نہ سمجھو ۔ علم اورسیکھنے کی کوئی حدنہیں اورجویہ سمجھتاہے کہ اس کاعلم مکمل ہوگیاتووہ سمجھتاہے کہ’’ بس میں ہی میں ہوں‘‘ اور جہاں انسان کی سوچ میں ’’ میں ہی میں ‘‘ آجاتی ہے تو وہ ’’ انا ‘‘ میں مبتلاہوجاتا ہے۔لہٰذا اگرغورکیاجائے توپہلی وحی کے پہلے لفظ ’’ اقراء ‘‘ کادرس ہی دراصل انا کی نفی ہے۔ الطاف حسین نے کہاکہ ابلیس اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب اور زیادہ عبادت گزارتھالیکن جب اللہ نے آدم کوتخلیق کیااور تمام ملائکہ اورفرشتوں کواسے سجدہ کرنے کاحکم دیاتو تمام ملائکہ اورفرشتوںنے آدم کوسجدہ کیالیکن ابلیس نے انکار کردیا،جس پر وہ ابلیس سے شیطان بن گیااوررہتی دنیاتک کے لئے خداکی لعنت اورذلت کاحقدارٹھہرا۔ لہٰذا جہاں اناہوگی وہاں شیطان ہوگا،چنانچہ جو فرد بھی انانیت کاشکارہوگاوہ شیطانیت کامرتکب ہوگا۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ بنگالی عوام کے بارے میں مغربی پاکستان کے لوگوںنے اجتماعی غرورواناپرستی میں مبتلاہوکریہ کہاکہ بنگالی دبلے پتلے اور چارفٹ کے ہیں،یہ وطن کی کیاحفاظت کریں گے ، ہمارے قد سات آٹھ فٹ کے ہیں لہٰذا پولیس، فوج اورتمام عسکری اداروں میں صرف ہماراحق ہے ،جب بنگالیوں نے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کی توکہاگیاکہ یہ دبلے پتلے چارفٹ کے بنگالی ہماراکچھ نہیں بگاڑسکتے ۔ اس اجتماعی غروراوراناپرستی نے ملک کودولخت کردیااوروہ بنگالی جنہیں حقارت کے ساتھ کمزور اور چارفٹ کاکہاجاتاتھاآج ان کاملک پاکستان سے معاشی طورپرمستحکم ہے۔ الطاف حسین نے کہاکہ اسی لئے میں نے تحریک کے ابتدائی ایام سے ہی کارکنوںکویہ درس دیاکہ اگروہ اجتماعی بقاء چاہتے ہیں تو اپنی اناکوفناکردیں اور ذاتی اناکے خول سے باہرآکرتحریک کے اجتماعی مشن ومقصد کے حصول کیلئے بے لوث ہوکر جدوجہد کریں ۔ الطاف حسین نے کہاکہ جب انسان کسی بڑے مقام یامرتبہ پرپہنچ جاتاہے توعموماًوہ اپنے ماضی اوراپنی اوقات کوبھول جاتاہے اور اناپرستی میں مبتلاہوکر دوسروں کو کم تراورحقیرسمجھنے لگتاہے اوریہ بھول جاتاہے کہ وہ ماضی میں خودکس حال میں تھا۔خودکو افضل وبرتر اوردوسروںکوحقیرسمجھنے کی یہ سوچ نہ صرف افراد میںتفریق پیداکرتی ہے بلکہ معاشرے میں طبقاتی فرق کوبھی جنم دیتی ہے ۔اگرکسی تحریک میںشامل افرادکے درمیان اس قسم کی سوچ پیداہوجائے تواس تحریک میں بھی طبقات پیداہوجاتے ہیں اورجوتحریک خودطبقات میں بٹ جائے وہ تباہ ہوجاتی ہے۔ الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی سمیت تمام ذمہ داروں کوتلقین کی کہ وہ اپنے ماضی کو نہ بھولیں،جولوگ اپنے ماضی کونہیں بھولتے اورجن کے پاؤں زمین پررہتے ہیںوہ کسی بھی اعلیٰ مقام پر پہنچنے کے باوجوداناپرستی اورغروروگھمنڈ میں مبتلانہیں ہوتے ۔

مزید خبریں :