پاکستان
Time 27 ستمبر ، 2017

اثاثہ جات ریفرنس: احتساب عدالت نے اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی


اسلام آباد: احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا جس کے بعد عدالت نے استغاثہ کے گواہان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے اور کیس میں سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔

نیب ریفرنس پر اسحاق ڈار 25 ستمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں عدالت نے مختصر سماعت کے بعد ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے آج طلب کیا تھا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آج اسحاق ڈار کے خلاف کیس کی چوتھی سماعت ہوئی جس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ملزم پر عائد الزامات پڑھ کر سنائے اور فرد جرم عائد کی۔

معزز جج نے فرد جرم کے نکات پڑھتے ہوئے کہا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے 831 ملین روپے کے اثاثے کرپشن کے پیسے سے بنائے، آپ پر الزام ہے کہ اثاثوں میں قلیل مدت میں 91 گنا اضافہ کرپشن کے پیسے سے ہوا۔

اسحاق ڈار پر فرد جرم میں پاکستان میں جائیداد اور اثاثوں سے متعلق زیادہ تفصیل شامل ہیں۔

فرد جرم میں پراپرٹی، بینک اکاؤنٹس، اثاثے اور منی لانڈرنگ کے الزامات شامل ہیں جب کہ فرد جرم میں کہا گیا ہےکہ اسحاق ڈار نے بے نامی اکاؤنٹس بھی کھولے اور اسحاق ڈار کے رشتے داروں کے نام پر بھی پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹس موجود ہیں۔

عدالت میں اسحاق ڈار نے فرد جرم کے جواب میں صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اثاثے کرپشن کے پیسے سے نہیں بنائے اور اثاثوں میں اضافہ کرپشن کے پیسوں سے نہیں ہوا۔

دوران سماعت اسحاق ڈار کے وکیل نے 2 قانونی نقطے اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملزم کو نقول تقسیم کرنے کے 7دن کے اندر فرد جرم عائد نہیں ہوسکتی اور نیب نے عبوری ریفرنس دائر کیا ہے اس لیے مکمل ریفرنس دائر ہونے تک فرد جرم عائد نہ کی جائے۔

اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل میں نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ فرد جرم نقول تقسیم کے 7 روز کے اندر عائد کی جاسکتی ہے اور مکمل ثبوت کی بنیاد پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔ 

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کے بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین جاری ہے اور حتمی ریفرنس میں بیرون ملک اثاثوں کی مکمل تفصیلات جمع کرائی جائیں گی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ آج ہی اس درخواست پربحث کرنا چاہتے ہیں، یہ درخواست محض کارروائی کو طول دینے کے لیے دائر کی گئی ہے، اسحاق ڈار کے خلاف عبوری ریفرنس میں مکمل ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔

اسحاق ڈار کے وکیل نے ان پر آج فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخوست کی تاہم عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد دونوں سے اتفاق نہ کیا اور اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی۔

عدالت نے ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد ضابطے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے نیب کو الزامات ثابت کرنے کا حکم دیا جس پر نیب حکام نے 28 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرادی۔

فرد جرم عائد ہونے کے بعد اسحاق ڈار کے وکلا نے ان کی حاضری سے استثنا کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے اس لیے اب ان کا عدالت آنا ضروری نہیں ہے اس لیے انہیں حاضری سے استثنا دیا جائے، ان کے روزانہ عدالت آنے سے معمولات متاثر ہوں گے جب کہ عدالت آنے سے دیگر مسائل کا سامنا بھی ہے تاہم عدالت جب طلب کرے گی وہ پیش ہوں گے۔

نیب نے اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنا کی مخالفت کردی تاہم عدالت نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ سناتے ہوئے استغاثہ کے 2 گواہان کو 4 اکتوبر کو طلب کرلیا۔

عدالت نے لاہور سے تعلق رکھنے والے 2 بینک ملازمین طارق جاوید اور اشتیاق علی کو طلبی کے سمن جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت بھی 4 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

احتساب عدالت نے پاناما کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے آغاز کے بعد 6 ماہ کے اندر مقدمات پر فیصلہ کرنا ہے۔

عدالت کے باہر شدید  بد نظمی

وفاقی وزیر خزانہ کی آج عدالت میں پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس اور اس کے اطراف سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔

سخت سیکیورٹی کے باعث میڈیا نمائندوں اور سائلین کو باہر روک لیا گیا جب کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور اسپیشل پراسیکیوٹر کوبھی روکا گیا تاہم انہیں تھوڑی دیر بعد جانے کی اجازت دے دی گئی۔

عدالت کے باہر رش کے باعث پولیس نے عدالت کے گیٹ بند کررکھے تھے، عدالت کے باہر دھکم پیل کے بعد اسحاق ڈار احاطہ عدالت میں داخل نہ ہوسکے جس کے باعث وہ واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے تاہم عدالت کے باہر بدنظمی کی وجہ سے اسحاق ڈار عقبی راستے سے احتساب عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے اور عقبی دروازے سے ہی واپس روانہ ہوئے۔

پولیس کی جانب سے وکلااور صحافیوں کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر عدالت کے باہر شدید بدنظمی ہوئی اور بعض وکلا عدالت کا گیٹ پھلانگ کر احاطہ عدالت میں داخل ہوگئے۔

صحافیوں کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر صحافی عدالت میں ہونے والی کارروائی سے لاعلم رہے اور عدالت میں موجود وکلا نے معلومات حاصل کرتے رہے۔

کیس کی گزشتہ سماعتیں

اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس پر پہلی سماعت 14 اور دوسری 20 ستمبر کو ہوئی جس روز ملزم کی عدم پیشی پر عدالت نے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔

25 ستمبر کو کیس کی تیسری اور گزشتہ سماعت پر اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے ریفرنس کے جائزے کے لیے کم از کم 7 دن دینے کی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔

عدالت نے ملزم کو 23 جلدوں پر مشتمل ریفرنس کی نقول فراہم کر کے وصولی کی رسید پر دستخط کرائے تھے اور فرد جرم عائد کرنے کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی تھی۔

واضح رہے کہ نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں شریف خاندان اور اسحاق ڈار پر ریفرنس بنائے ہیں جب کہ شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں جس میں میاں نوازشریف پر فرد جرم کے لیے 2 اکتوبر کی تاریخ مقرر ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے کیس میں گزشتہ روز پیش نہ ہونے پر نوازشریف کے بچوں اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

مزید خبریں :