پاکستان
28 اپریل ، 2015

اداروں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہو رہی، چیف جسٹس پاکستان

اداروں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہو رہی، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد.......چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کا کہنا ہے کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہو رہی، 18ویں آئینی ترمیم آئے پانچ سال گزر چکے،ججز تقرری کا طریقہ کار طے ہو چکا ہے، اب اگر نیا نظام لایا جائے توکیا یہ نئے مسائل کو جنم نہیں دے گا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ نے اٹھارہویں اور 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ سانگھڑ بار کے وکیل حامد خان کا مؤقف تھا کہ ججزتقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار نہیں ہونا چاہیے اگر ججز کی نامزدگیوں کا اختیار قائدایوان اور قائد حزب اختلاف کو دے دیا گیا تو سیاسی عمل دخل سے مسائل پیدا ہوں گے اور فاروق نائیک کمیٹی کی سفارشات سے مزید مسائل جنم لیں گے۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا برطانیہ میں عوامی رائے آئی کہ ججز تقرری کے عمل سے پارلیمنٹرین کو دور رکھا جائے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹریز یا دیگر تقرریوں میں تو پارلیمنٹ شامل نہیں ہوتی، ججز تقرریوں میں کیوں شامل ہو، پھر تو کوٹہ سسٹم ہو جائے گا کہ دو تمہارے اور تین ہمارے جج، اس طرح سیاسی جماعتوں کے جوڈیشل ونگ بن جائیں گے۔ اس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں سیاستدان ہی قوانین بناتے ہیں اور سب اس پر عمل کرتے ہیں، سیاستدانوں پر بے اعتمادی کیوں ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے تو صحت مندانہ بات ہے، تشویش کی بات تو تب ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ ہاتھ ملا لیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ آئین سازی کے وقت چار ماہ تک بحث ہوئی،اب آدھے گھنٹے میں ترامیم منظور ہو جاتی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کیا ترمیم پر بحث نہ ہونے کو وجہ بنا کر اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حامد خان سے سوال کیا کہ ایک پارلیمنٹ مستقبل کی پارلیمنٹ کو کس طرح پابند کرسکتی ہے، ہر نئی نسل ایک نئی قوم ہو تی ہے۔ اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہاوت ہے کہ کیا مردے زندوں کو پابند کرسکتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کو مختلف عدالتی فیصلوں میں واضح کیا جا چکا ہے، بحث یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا کیا اختیار ہے ؟وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ خان نے اپنے دلائل میں جب یہ کہا کہ ججز تقرری پر فل کورٹ نے بہت وقت صرف کیا،لگتا ہے ادارو ں میں جنگ ہورہی ہے، کیاعدالت نے اس کا جائزہ لیا کہ اس ملک میں تعلیم، صحت اور توانائی کی کیا صورت حال ہو چکی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہے ہم یہاں پورے آئین کا جائزہ نہیں لے رہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ جنگ ہونے کی دلیل آپ اپنے پاس رکھیں کسی ادارے سے کوئی جنگ نہیں ہو رہی۔ کیس کی مزید سماعت اب بدھ کو ہو گی۔

مزید خبریں :