پاکستان
24 جون ، 2015

18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت

18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت

اسلام آباد.......آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج بھی جاری رہی۔ اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ ریاست کےخلاف اعلان جنگ کرنے والوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کےخلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے ملا فضل اللہ سمیت کالعدم تحریک طالبان کے رہنماؤں کی مختلف ویڈیوز پیش کیں جن میں پاکستان کےخلاف اعلان جنگ اورافواج پاکستان کےخلاف مختلف مسلح کارروائیاں بھی دکھائی گئیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاست کےخلاف اعلان جنگ ہوچکا، شدت پسندوں کو آرمی ایکٹ کے دھارے میں لانے کیلئے آئینی ترمیم کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس صورت حال میں ریاست کیاکرہی ہے؟؟کیا ریاست نے داعش کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا؟ کیا مہر نبوت کو دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کا فعل جرم قرار دیا گیا؟ کیا کسی کو امیر المومنین یا خلیفہ قرار دینے کو جرم کہا گیا؟ اور اگر ایسا ہے تو نوٹیفیکیشن پیش کیےجائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہاکہ ویڈیوز میں دکھائے گئے افراد کےخلاف مقدمات درج کیے گئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ آئے روز ملک میں پرتشدد واقعات ہورہے ہیں، پاکستان پہلے تو ایسا نہ تھا، ملک کےخلاف جنگ کرنے والوں کےخلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے، بتایا جائے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے اور ذمہ دار کون ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کیمرا سماعت میں تمام حقائق پیش کیے جاسکتے ہیں، اکیسویں ترمیم میں دہشت گردوں کے بنیادی حقوق ختم کیے گئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ پاکستان ہے تو آئین ہے۔

مزید خبریں :