29 جون ، 2015
کراچی.......کراچی میں شدید گرمی سے گیارہ سو سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے لیکن اب بھی ریکسیو 1122 متحرک نہیں۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لیے ایک کال سینٹر، پانچ ٹیلی فون اور ایک آپریٹر تمام نظام چلا رہے ہیں۔ گراچی میں گرمی نے 11سو گھرانوں میں صفِ ماتم بچھادی جبکہ عوام کو ریلیف پہنچانے میں سندھ حکومت مکمل بے بس نظر آئی۔ عوام اپنے پیاروں کو طبی امداد کیلئے بھی فلاحی اداروں کی ایمبولینس کے پیچھے دوڑتے رہے تو کبھی ان کی میتیں اٹھائے دردر کی ٹھوکریں کھاتے نظر آئے۔ سینکڑوں افراد اب بھی شہر کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جبکہ صوبائی حکومت کے پاس مریضوں کی سہولت کیلئے ایمبیولینسوں کا فقدان ہے۔ حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ ریسکیو 1122 چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے ٹیم جیو جب سوک سینٹر میں واقع 1122 کے صدر دفتر پہنچی تو معلوم ہوا کہ آفس کیا ہے، ایک بوسیدہ سے کمرہ ہے جہا ں عوامی شکایات کے ازالے کےلئےایک کال سینٹر، 5 ٹیلیفون اور ایک آپریٹر تمام نظام چلا رہے ہیں۔صوبہ پنجاب کی دیکھا دیکھی میں 2013ء میں سندھ میں بھی ریسکیو 1122 کا آغاز ہوا اور دو کروڑ روپے کی مدد سے24 ایمبولینسوں کے ساتھ 10 اضلاع میں اس کا آغاز کیا گیا۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نےبھی 2012 میں اربوں روپے کی لاگت سے درجنوں ایمبولینسز منگوائیں لیکن وہ بھی اب کہیں موجود نہیں۔کے ایم سی کے شعبہ صحت کی سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمیٰ کوثر ریسکیو 1122 کے تمام معاملات کو دیکھ بھال کر رہی ہے اور باوثوق ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ ایمبولینسز نہ چلنے کے باوجود بھی ان تمام کے لئے فیول ہر ماہ لیا جا تا ہے۔