04 ستمبر ، 2015
استنبول.........ایک بچے کی مظلومیت نے ساری انسانیت کو رلادیا، ترکی کے ساحل کےقریب ڈوبنے والے تین سالہ شامی بچے ، ’’ایلان کردی‘‘ نے عالمی رہنماؤں کو پناہ گزینوں کی مشکلات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔ چند دن پہلے آسٹریا میں ٹرک سے 70سے زائد تارکین وطن کی لاشیں ملیں ،کسی پر فرق نہ پڑا، ایک ہفتے پہلے بحیرہ روم میں کشتی ڈوبی، دوسو تارکین وطن جان سے گئے، یورپ پہنچنے کی کوشش میں گزشتہ ماہ ایک ہزار سے زائد افراد جان گنوابیٹھےمگر کہیں شور نہ اٹھا، لیکن ایک معصوم بچے کی موت نے ساری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ترکی کے ساحل پر پڑی لاش کا منظر جس کسی کی نظر سے گزرا، جذبات کو بے قابو کرگیا ، سخت سے سخت دل موم ہوگئے، پناہ گزینوں کےلیے سرحدیں بند کرنے والی یورپی ملکوں کے سربراہان بھی اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ آخر کچھ تووجہ ہے جو مشرق وسطیٰ، خاص کر جنگ زدہ شام اور افریقی ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جان پر کھیل کر یورپ پہنچنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔ پناہ کے متلاشی یہ لوگ سفر کے ناقابل اور گنجائش سے زیادہ بھری کشتیوں میں بیٹھ کر خود کو بحیرہ روم کی بے رحم موجوں کے سپرد کررہے ہیں ۔ بین الاقوامی تنظیم برائے امیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق رواں برس بحیرہٴ روم کے راستے تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد افراد یورپ پہنچ چکے ہیں، جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد بدقسمت اپنی منزل کو نہ پاسکے اور سمندر میں ڈوب گئے ۔ یورپ پہنچنے والے تارکین کی بڑی تعداد یونان اور اٹلی پہنچ رہی ہے جہاں سے ان کی اگلی منزل ہنگری اور آسٹریا سے گزر کر جرمنی پہنچنا ہے ، جو مضبوط معیشت کا حامل ملک ہے۔ جرمنی میں رواں برس کے دوران سوا لاکھ سے زائد غیرقانونی مہاجرین کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے، جبکہ اندازے کے مطابق جرمنی کو اِس سال کے اختتام تک آٹھ لاکھ تارکین وطن کی درخواستیں موصول ہو سکتی ہیں، اس غیر معمولی بحران سے نمٹنے کےلیے یورپی ملکوں کا 14ستمبر کو برسلز میں اجلاس ہوگا جس میں یورپ پہنچنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کےلیے کوٹہ مختص کرنے پر غور کیا جائے گا۔