08 ستمبر ، 2015
نئی دہلی......بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کو ویزا ختم ہونے کے بعد بھی یا سفری دستاویزات نہ ہونے کی صورت میں بھی بھارت میں رہنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ گذشتہ برس پارلیمانی انتخابات کے دوران بی جے پی نے پاکستان سے بھارت آ کر بسنے والے ہندوں کو بھارتی شہریت دینے کی راہ ہموار کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔وزارت داخلہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق: وفاقی حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے وہ پناہ گزین جو 31دسمبر 2014سے پہلے بھارت میں داخل ہوئے تھے، انھیں یہاں رہنے کی اجازت دی جائے گی، چاہے ان کا ویزا ختم ہو گیا ہو یا پھر ان کے پاس مکمل سفری دستاویزات نہ بھی ہوں۔ پاکستان سے بڑی تعداد میں ہندو بھارت کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ان کا الزام ہے کہ پاکستان میں انھیں مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندوں کے علاوہ سکھوں اور عیسائیوں سمیت دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی بھارت میں پناہ لی ہے، لیکن عام تاثر یہ ہے کہ پناہ لینے والوں میں سب سے بڑی تعداد پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندووں کی ہے۔ گذشتہ برس آسام میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ جیسے ہی ہم اقتدار میں آئیں گے، وہ حراستی کیمپ ختم کردیے جائیں گے جن میں بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوں کو رکھا جاتا ہے جن ہندوں کے ساتھ دوسرے ممالک میں زیادتی ہوتی ہے، ان کے بارے میں ہماری ایک ذمہ داری ہے، وہ کہاں جائیں گے؟ ان کے لیے صرف ہندوستان میں ہی جگہ ہے۔نریندر مودی کو اس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنےوالوں کا موقف تھا کہ پناہ گزینوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جانی چاہیے۔ایک تخمینے کے مطابق بھارت میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے تقریبا دو لاکھ سکھ اور ہندو آباد ہیں۔جبکہ تقریباً 4300لوگوں کو شہریت دی جاچکی ہے جبکہ کانگریس کی سابقہ حکومت کے دوسرے دور اقتدار میں یہ تعداد ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔