22 ستمبر ، 2015
لاہور ......عالم اسلام کی نابغہ روزگار شخصیت ، مفکر اسلام اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو ہم سے بچھڑے 36 برس بیت گئے۔
مولانا مودودی کی معرکتہ الآراء تصانیف آج بھی رشد و ہدایت کے متوالوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔1903ء میںحیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے مولانا مودودی نے 15 برس کی عمرمیں صحافت اور 24 سال کی عمرمیں پہلی تصنیف’ الجہاد فی اسلام ‘تحریر کرکے اہل علم کی توجہ حاصل کی۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ اسلام کو صرف مسجد اورمدرسے کا مذہب سمجھا جاتا تھا، لیکن مولانا مودودی نے یہ پیغام دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
معرکتہ الآراء تصنیف خلافت وملوکیت نے مولانا مودودی کواسلامی دنیا میں شہرت کی بلندیوں پرپہنچا دیا، اگرچہ ان پرقیام پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا جاتا ہے، تاہم انہوں نے تحریک آزادی ہند اور مسلمانوں کی کشمکش کے عنوان سے دوقومی نظریے کی موثر وکالت کی۔
تفسیرقرآن کے ساتھ اسلام کوبہ حیثیت نظام پیش کرنے کیلئے مولانا نے 3 درجن سے زائد کتب اورمقالے تحریر کیے۔ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ نظربندیوں اور قید میں گزرا، ایوب دور میں فوجی عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا بھی سنائی جسے بعد میں عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔
مولانا مودودی نے اصلاح معاشرہ کے لیے فرد کی کردار سازی پر زور دیا، انہوں نے 1941 ءمیں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، مولانا کے جہاں لاکھوں چاہنے والے ہیں وہیں ان کی جدوجہد پرتنقید بھی کی جاتی ہے، تاہم ان کی اپنے نظریے سے وابستگی بینظیر رہی۔