پاکستان
23 ستمبر ، 2015

خصوصی رپورٹ: سندھ میں دنیا کا سب سے بڑا قلعہ اور چین کی ’گریٹ وال ‘سے بڑی دیوار

خصوصی رپورٹ: سندھ میں دنیا کا سب سے بڑا قلعہ اور چین کی ’گریٹ وال ‘سے بڑی دیوار

کراچی…ساگر سہندڑو… سندھ کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جس کا اقرار دنیا کے نامور مئورخ اور محقق بھی کر چکے ہے۔ سندھ میں موجود ’ موہن جو دڑو، کوٹ ڈیجی کا قلعہ، صحرائے تھر، کیر تھراور کارونجھر پہاڑیوں کا سلسلہ، رنی کوٹ اور ضلع جامشورو کی پہاڑیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ سندھ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن اپنے قیمتی ورثے کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ پاکستان اور سندھ میں رہنے والوں کی اکثریت اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ یہاں بھی دیوار چین جیسی ہی ایک عظیم دیوار موجودہے۔یہاں تک کہ دیوار چین 5500 کلو میٹر طویل ہے جورنی کوٹ سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر چھوٹی ہے۔

کراچی سے قریبا تین سو کلو میٹر دور ضلع جامشورو کے پہاڑی صحرا میں موجود رنی کوٹ جسے ’ عظیم دیوار سندھ ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ جامشورو شہر سے لگ بھگ 120 کلو میٹر نیچے’ سن‘ شہر کے قریب واقع ہے۔

رنی کوٹ کب کیسے اور کیوں بنا اس بحث پر محققین ابھی تک متفق نہیں ہو پائے کچھ کا کہنا ہے کہ رنی کوٹ ساسانیوں کے دور کا قلعہ ہے، چند ماہرین اسے یونانیوں کی طرز تعمیر سے مشابہہ قرار دیتے ہیں، کچھ کا خیال ہے رنی کوٹ قلعہ 836ہجری میں عرب گورنر عمران بن موسیٰ نے تعمیر کروایا اور بعض کا ماننا ہے کہ قلعے کو تالپر حکمرانوں نے 1812میں بنوایا تھا۔

سندھ حکومت کے ماتحت سندھی ادبی بورڈ کے رسالہ مہران کے مطابق رنی کوٹ کا سب سے پہلا تذکرہ مشہور انگریز سیاح الیگزینڈر برنس نے کیا تھا جو 1831ع کو رنی کوٹ سے گزرے تھے لیکن موجودہ دور میں رنی کوٹ کو دنیا میں سب سے زیادہ پذیرائی دلانے کے لئے قوم پرست سیاست کے روح رواں جی ایم سید کا بڑا ہاتھ ہے۔

نامور محقق اور مئورخ بد ر ابڑو، ایم ایچ پنہور اور تاج صحرائی کے مطابق رنی کوٹ کی دیواروں کی لمبائی 30فٹ اور چوڑائی سات فٹ ہے جبکہ قلعہ 16 سے 30کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔قلعہ کی ایک دیوار سات ہزار 777اور دوسری تین ہزار580 میٹر طویل ہے۔

دنیا کے بڑے قلعے کا اعزا ز رکھنے والے رنی کوٹ سے متعلق کچھ محققین یہ بھی کہتے ہیں قلعہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے اورحضرت عیسیٰ سے بھی قبل اس وقت بنا تھا جب سندھ ایران کی حدود میں واقع تھا لیکن اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں اور یہی بات قلعے پر مزید تحقیق کا تقاضہ کرتی ہے۔

رنی کوٹ پر کام کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید لکھتے ہیں قلعہ میں داخل ہونے کے لئے منفرد قسم کے چار گیٹ ہیں جو صرف اور صرف داخل ہونے کے لئے بنائے گئے تھے ، قلعے میں تباہ حال ڈیم بھی موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کسی وقت میں قلعے کے اندر زرخیزی ہوتی تھی۔

محقق مسٹر اے ڈبلیو ہوزنے 1856ع میں اپنی کتاب ’ سندھ گزیٹیئر‘ میں لکھا ہے رنی کوٹ سندھ کے تالپر حکمرانوں نے اپنا قیمتی سامان محفوظ کرنے کے غرض سے بنوایا ہوگا، سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بھی کسی حد تک مسٹر اے ڈبلیو ہوز سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ قلعہ تالپر حکمرانوں کے وزیر نواب محمد خان لغاری نے بنوایا تھا۔

رنی کوٹ پر تحقیق کرنے والے بدر ابڑو لکھتے ہیں قلعہ کسی ایک وقت میں تعمیر تکمیل پر نہیں پہنچ پایا تھا ، قلعے کی تعمیر ایک سے زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہوئی ہوگی، رنی کوٹ کی مضبوط دیواروں کو دیکھ کر اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ قلعہ کی تیاری کتنے دشوار مراحل سے گزری ہوگی۔

محققین کی جانب سے دیئے گئے اعدادو شمار کے مطابق رنی کوٹ کی تعمیر میں تین سے چار ہزار مزدوروں نے کئی ماہ تک کام کیا ہوگا اور اندازے کے مطابق اس وقت قلعے کی لاگت پر 12لاکھ روپے خرچ کئے گئے ہوں گے جو اس وقت بڑھ کر کروڑوں روپے بنتے ہیں۔

رنی کوٹ کے نام سے مشہور اس” عظیم دیوار سندھ“ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قلعے کے اندر 2 اور چھوٹے قلعے ہیں جو اس کو دنیا کے منفرد اور عظیم قلعے کی حیثیت دیتے ہیں، اس وقت دنیا بھر میں دیوار چین سے لیکر یورپ ، افریقہ اور وسطی ایشیا میں موجود قلعوں میں شاید ہی کوئی ایسا قلعہ ہو جس کے اندر مزید قلعے موجود ہوں۔

محقق عبدالجبار جونیجو لکھتے ہیں انسائیکلو پیڈیا بری ٹینیکا کے مطابق دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہرمیں تھا جو سات ہزار قبل مسیح میں بن کر تیار ہوا جس کی دیواریں21فٹ لمبی اور15 فٹ چوڑی تھیں جبکہ اس قلعے کی دیواریں نو فٹ تک زمین میں دھنسیں ہوئی تھیں۔

جونیجو صاحب رنی کوٹ سمیت دیگر قلعوں کی طرز تعمیر اور فن کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں رنی کوٹ اور دیوار چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کی کڑی ہیں۔ محققین کہتے ہیں رنی کوٹ، عمر کوٹ، کوٹ ڈیجی، حیدرآباد میں موجود لال قلعہ سمیت تمام قلعوں پر بھرپور تحقیق ہونی چاہئے تا کہ اصل اور صحیح تاریخ تک پہنچا جا سکے۔

سندھ کے ایک اور محقق ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں ”رنی کوٹ جن پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے وہ کم از کم تین سے چھ یا چار سے آٹھ کروڑ سال پرانی ہیں اور وہ ہندوستان سے پاکستان تک پھیلی ہوئی ہیں ، پہاڑیوں کی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے قلعے کی تعمیر کا وقت متعین کرنا ممکن نہیں ہے۔“

تاریخ کیلئے اہم ترین سمجھے جانے والی کتاب ” فتح نامہ “ کے مطابق رنی کوٹ 1227سے1244ہجری مطابق 1812 سے 1829 تک بن کر تیار ہوا جس کی تصدیق بعد میں اے ڈبلیو ہیوز نے بھی اپنی 1876 میں چھپنے والی کتاب ”سندھ گزیٹیئر“ میں کی ہے۔

انگریز مورخ اور محقق ایچ ٹی لئمبرک نے اپنی کتابوں ” سر چارلس نیپیر اور سندھ، جان جیکب آف جیکب آباد “میں سندھ کی تاریخ و تہذیب کے بارے میں بہت سی اہم باتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے بھی رنی کوٹ سے متعلق لکھا ہے۔ تاریخ کی کئی اہم کتابوں میں بھی رنی کوٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔

رنی کوٹ پر مستند اور صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے آج دنیا بھر میں رنی کوٹ کو وہ جگہ نہیں مل پائی جو دیوار چین سمیت دنیا کے دیگر قلعوں کے حصے میں آئی ہے۔ مختلف محققین کی مختلف باتیں رنی کوٹ سے متعلق عام لوگوں کو مزید پریشان کردیتی ہیں اور عام لوگ رنی کوٹ کی تاریخ پر اعتبار ہی نہیں کر پاتے۔

گزشتہ کئی سالوں سے یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیئے جانے کے باوجود تاحال رنی کوٹ پر کوئی مستند تاریخ سامنے نہیں آئی، حکومت سندھ کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہزاروں سال پرانہ دنیا کا یہ ’ عظیم قلعہ ‘ زبون حالی کا شکار ہے۔

مزید خبریں :