21 اکتوبر ، 2015
کراچی ......سپریم کورٹ نےایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ کراچی میں اگر پانی کی قلت ہے تو بڑی تعداد میں ٹینکرزپانی کہاں سے لیکرآتے ہیں ، ڈیفنس والے تو پانی خرید لیتے ہیں غریب آبادی کے لوگ کیسے خریدیں گے۔
ﷰسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ اور شہر میں پانی کی قلت کے معاملے کی سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ٹریٹمنٹ پلان منصوبہ مکمل نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاق اور سندھ حکومت کوایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے ہدایت کی ہے۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ کیس میں چیف سیکرٹری سندھ اور ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر اداروں کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر شہر میں پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کو پانی کہاں سے مل رہا ہے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ کانٹریکٹرز کے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث غیرقانونی ہائیڈرنٹ کی بندش فوری ممکن نہیں،32 کروڑ روپے کے واجبات آئی ڈی پیز کیلئے بھیجے جانے والے ٹینکرز کے ہیں، جو نواب شاہ اور بدین تک حکومت سندھ کی ہدایت پر بھیجے جاتے رہے ۔
اس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ واٹر ٹینکر آئی ڈی پیز تک پہنچے بھی ہیں یا نہیں۔ایم ڈی واٹر بورڈ کا کہنا تھا کہ تصدیق نہیں کرسکتا ۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کے بیان پر جسٹس مقبول باقرنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ٹینکرز کے 80 فیصد بل جعلی ہیں لیکن ہم مجبور ہیں کچھ کہہ نہیں سکتے، پہلے متاثرین کو بھیجے گئے ٹینکرز کی تصدیق کی جائے پھر ادائیگی کی جائے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں یومیہ 60 کروڑ گیلن پانی کا شارٹ فال ہےارسا کو چاہیے کہ پانی کا کوٹہ بڑھائے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ حکومتی اداروں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے،ایم ڈی واٹر بورڈ کی گفتگو سے نہیں لگتا کہ شہر میں پانی کا مسئلہ حل ہوگا۔
جسٹس انورظہیرجمالی کا کہنا تھا کہ اگر پانی کی قلت ہے تو بڑی تعداد میں ٹینکرز پانی کہاں سے لیکر آتے ہیں ۔ایم ڈی واٹر بورڈ کہتے ہیں کہ ڈیفنس میں پانی کی قلت ہے۔ڈیفنس کے ہر گھر میں لان موجود ہے اور سب سے زیادہ پانی ڈیفنس میں استعمال ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا حکم دینے پر مجبور نہ کریں کہ ڈی ایچ اے کیلئے کام کرنا مشکل ہوجائے،ڈی ایچ اے شہریوں سے 50،50 لاکھ روپے ڈولپمنٹ چارج وصول کر رہی ہے، لیکن پانی نہیں دے رہی۔
عدالت نے کیس کی سماعت 10 روز کے لیے ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر چیف سیکریٹری سندھ اور ایم ڈی واٹر بورڈ سمیت دیگر اداروں کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔