29 مئی ، 2012
پشاور… خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی نے جہاں انفراسٹرکچر اور معاشرتی قدروں کو پامال کیا وہیں صوبے میں صنعتی ترقی کا پہیہ بھی جام ہونے کو ہے۔ خیبر پختون خوا کے گلی کوچوں میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ نے صوبے کی صنعتوں کو بھی نگل لیا۔ دس سال قبل خیبر پختون خوا میں 2254کارخانے تھے۔تاہم دہشت گردی کے باعث 1600کارخانے بند ہو گئے اور صنعت کاروں نے دوسرے شہروں کی راہ لی۔ صنعتوں کی بندش کے باعث 50ہزار سے زیادہ مزدور بے روزگار ہوئے۔ قبائلی علاقوں میں بھی دہشت گردی اورفوجی آپریشنز کے باعث لگ بھگ اڑھائی سو کارخانے بند ہو ئے ۔صنعتوں کی بندش کے باعث صوبے کی برآمدات پچاس فیصد کم ہوگئیں جبکہ صنعتی پیداوار کم ہوکر 25فیصد رہ گئی ہے۔صوبے کے صنعتی یونٹوں میں تین کے بجائے اب صرف ایک شفٹ میں کام ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی وجہ سے بھی صنعت کار پریشان دکھائی دیتے ہیں۔صنعت کاروں کا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں صنعتوں کی بحالی کے لئے تین سالہ مراعاتی پیکیج کا اعلان کرے جس کے تحت انہیں انکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنیٰقرار دیاجائے جبکہ قرضوں پر سود کی شرح کو بھی پچاس فیصد کم کیا جائے۔