پاکستان
09 مارچ ، 2016

دو خوفناک مناظر اور شیماکرمانی کی ’تحریک نسواں‘

دو خوفناک مناظر اور شیماکرمانی کی ’تحریک نسواں‘

کراچی ...مدیحہ بتول...وہ بہت کمسن ، ناسمجھ اور معصوم تھی۔ بھولی بھالی۔۔یوں ہی گلیوں میں کھیلا کرتی تھی۔ ایک روز بابا سےملے پیسوں سے وہ چیز لینے محلے میں واقع ’’انکل ’’ کی دکان پر گئی تو’انکل‘ نے ایک بے رحم اور شیطان کا روپ دھار لیا۔ باتوں میں لگاکر اسے بے ہوشی کی دوا سنگھا دی، پھر اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے اسے ایک ویرانے میں لے جاکروہ درندگی دکھائی کہ انسانیت بھی کانپ اٹھے۔

ایک کے بعد ایک انسان کے روپ میں چھپے بھیڑئیے قہقہے لگاتے رہے اور باری پہ باری لگاتے رہے ۔ یہاں تک کہ وہ معصوم پھول کملاگیا ۔ایک کے بعد دوسری رات اور پھر تیسری ۔۔۔یہی دلدوز منظر سامنے آتے رہے اور وہ چاہ کر بھی کچھ نہ کرسکی۔

کئی روز بعد قسمت نے یاوری کی تو اسے بھاگ کر گھر واپس آنے کا موقع مل گیا ۔ گھر والے دیوانہ وار منتظر تھے۔ اس کی حالت دیکھ کر ماں کا تو جیسے کلیجہ ہی منہ کو آگیا۔ وہ لٹی پٹی اپنی بچی کو سینے سے لگاکر رونا چاہتی تھی مگر گھر کے مرد ہی اس کے آڑے آگئے۔ باپ اور بھائیوں نے ستم ظریفانہ فیصلہ صادر کردیا کہ بیٹی ’کاری‘ ہوگئی ۔۔ہم اسے اپنا نہیں سکتے ۔۔دنیا کیا کہے گی ۔۔۔اسے کیا منہ دکھائیں گے۔ ۔

ایک اور منظر۔۔!!!
کسی جگہ ایک چھوٹی عمر کے لڑکے کو چار پانچ لوگ مل کر مار رہے تھے ۔اچانک اس کی بہن اسے بچانے آپہنچی۔پوچھا کہ تم لوگ میرے بھائی کو کیوں مار رہے ہو۔جواب آیا کہ اس نےکسی لڑکی کا دامن داغدار کیا ہے۔

’’نہیں۔۔۔۔ میرا بھائی ابھی کمسن ہے ،یہ ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ لڑکی بولی

جواب ملا’’اس نے ایسا ہی کیا ہےاسی لیے ہم نے بھی کھیتوں میں اس کے ساتھ وہی کچھ کرکے حساب چکتا کر دیا۔۔۔اور اب تمہاری باری ہے کیونکہ تم اس کی بہن ہو۔اس کے کیے کی سزا ہم اس کی بہن کو دیں گے کیونکہ خون کا بدلہ خون اور زیادتی کا بدلہزیادتی۔

اس کے بعد وہ لوگ اس عورت کو اٹھا کر لے گئے۔ سب نے مل کر انسانیت سے گھناؤنی کھیل کھیلا ۔۔اوروہ فریاد ہی کرتی رہ گئی۔

یہ پاکستانی یا بھارتی ڈراموں کی منظر کشی نہیں بلکہ جیتے جاگتےانسانوں کے وہ المیے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہمارے ہی درمیان سانس لے رہے ہیں۔ یہ منظر ہماری خواتین کے ساتھ عام ہیں اور بد قسمتی سے باربار دہرائے جاتے ہیں۔۔۔ستم بالائے ستم یہ کہ انہیں اب ’رسمیں‘ کہا جانے لگا ہے۔۔

’عزت ہی نہیں انسان ہیں ہم ۔۔‘
شیما کرمانی کی تنظیم ’تحریک نسواں ‘ناصرف انسانیت کی قاتل ان رسموں کے خلاف ہے بلکہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر یہ منظر بھی انہی کی تنظیم نے آرٹس کونسل کے ہال میں اسٹیج کئے تاکہ خواتین کے عالمی دن کا حقیقی پیغام عام ہو۔

شیما کرمانی اور ان کی تنظیم نے اس پرفارمنس کے ذریعے خواتین پر ہونےوالے ظلم و تشدد کی ناصرف منظر کشی کی بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ عورت صرف گھر کی’عزت‘ نہیں بلکہ ایک انسان بھی ہے۔

یہ مناظر اتنے پراثر تھے کہ پتھر دل موم ہوجائیں مگر بات صرف ان کے ذریعے آگاہی پھیلانے کی ہے ۔ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو ہی یہ کام کرنا پڑے گا ۔

شیما کرمانی نےاس حوالے سے ’ جنگ‘ ،’جیو‘ ویب ڈیسک کی نمائندہ سےخصوصی بات چیت کے دوران بھی اسی نکتے کو آگے بڑھایا ان کا کہنا ہے ’اپنے حالات کو بدلنا عورت کےہاتھ میںہے۔عورت کی زندگی اور اس کی شخصیت کی اہمیت سماج کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔اسے انسان سمجھا جائے اور برابری کی حیثیت دی جائے‘‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھریلو تشدد ، غیرت کے نام پر قتل اورظالم شوہر کی طرف سے کیے جانے والاتشدد معاشرے میں عام ہوتا جارہا ہے۔اگر کوئی عورت اپنے لیے انصاف تلاش کرنے نکلتی ہے تو اس کی پہنچ انصاف کے کٹہرے تک نہیں ہو پاتی اور وہ ہار کرگھر بیٹھ جاتی ہے یا خودکشی کو اپنے لئے مناسب سمجھنے لگتی ہے۔‘‘

خواتین پر تشدد اور غیر ت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اٹھانے والی ممتاز کالم نگار اور انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد کا کہنا ہے ’خواتین کی عزت و وقار بڑا مسئلہ ہے۔جب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ بدسلوکی کرتاہے تو شرم اس عورت کو نہیں مرد کو آنی چاہئے ۔میں نے اپنے گھرکی خواتین کو بھی مار کھاتے دیکھا ہے۔ میں نے خالہ ،پھپھو،ممانیوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتے دیکھا ہے جس پر کبھی کبھی میری دادی بھی لاپرواہی سے اظہارکر دیتی تھیں۔ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہی ہے کہ ہم جرم کو جرم نہیںسمجھتے۔ہمیں چاہئے کسی کے گھر بھی اگر ایسا ہو تو اسے جرم مانا جائے۔ہماری ریاست کو بھی کہنا پڑے گا کہ یہ جرم ہے اور اس کی سزا بھی ہونی چاہئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستان میں اب تک تین صوبوں میں تحفظ نسواں سےمتعلق بل پاس ہوئے ہیں مگر ابھی تک کسی میں بھی عورت پر تشدد کرنےوالے کی سزا متعین نہیں کی گئی۔میراوزیر اعظم سے مطالبہ یہ ہے کہ آپ ہمارے ووٹوںسے آئےہیں۔آپ کو ووٹ دینے والی اکثریت خواتین کی ہے، ہمارے مسائل کاتدارک کیجئے۔ہمارے لیے جو قوانین بنتے ہیں صرف سیاست ہے۔ایسے امتیازی قوانین کو ختم ہونا چاہئے۔‘‘

نامور سوشل ایکٹیوسٹ،طاہرہ عبد اللہ کا کہنا ہے کہ ’ 80فیصد خواتین پر عمر کے کسی نہ کسی حصے میں تشدد ہوا ہوتا ہے۔ عورتوں کے لیےبنائی گئی تنظیموں سے ملنے والے اعدادو شمار سے کہیںزیادہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔‘‘

ایک اور سوشل ایکٹیوسٹ،سارا نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ میںدس سال سے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین پر کام کر رہی ہوں۔زیادتی صرف عورتوں اورلڑکیوں پر نہیں ہوتی بلکہ اس کا شکار لڑکے بھی ہوتے ہیں۔لڑکوں کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جنسی تشددزیادہ تر گھر میں اپنے ہی رشتہ داروں کے ہاتھوں ہو تا ہے،ضروری نہیں کہ یہ گلی محلے میں ہو۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کے خلاف قوانین سخت سے سخت کئے جائیں ۔ ‘‘

مزید خبریں :