18 جولائی ، 2016
ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد 6ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زیادہ ججوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ باغیوں کے سربراہ سابق ترک ائیرچیف مارشل جنرل آکن اوزترک تھے، جنھیں اب حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد صورت حال پر صدر رجب طیب اردوان کا کنٹرول مضبوط ہے۔
ملک بھر میں چھاپے مار کر6 ہزار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں فوج کے جنرل بھی شامل ہیں۔ ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اردوان حکومت نے 2745 ججوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
وزیر انصاف بیکر بوزداگ نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں سزائے موت ایک بار پھر بحال کر دی جائے۔ صدر اردوان نے کہا ہے کہ یہ فوجی بغاوت ہمارے لیے اللہ کا تحفہ ثابت ہوئی ہے کیونکہ اب ہم فوج کی صفائی کر سکیں گے۔
اسی بنیاد پر بعض حلقے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بغاوت کی ناکامی کے بعد اردوان ملک میں جمہوری آزادیوں کو محدود کر سکتے ہیں۔ ترک اپوزیشن اسی حوالے سے ان پر پہلے بھی تنقید کرتی رہی ہے۔
ترک ذرائع نے بتایا کہ باغی ٹولے کی قیادت ترک فضائیہ کے سابق سربراہ جنرل آکن اوزترک کر رہے تھے۔ جنرل اوزترک بغاوت کے وقت ترک سپریم ملٹری کونسل کے رکن کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ناکام بغاوت کے بعد جنرل اوزترک کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ ترک بری فوج کے دو جنرل آدم خدوتی اور اونی انگون بھی اس کے ساتھ تھے۔
ترک صدر نے بغاوت میں مسلم اسکالر فتح اللہ گولن کو بھی ملوث قرار دیا تھا مگر امریکا میں مقیم گولن نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہیں۔ ترکی نے امریکا کو انجرلک ہوائی اڈے کے استعمال سے روک دیا ہے جہاں سے امریکا داعش کے خلاف فضائی کارروائیاں کرتا ہے۔
بعض ترک حکام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ باغیوں نے جن طیاروں پر قبضہ کیا تھا انھوں نے ایندھن بھرنے کے لیے انجرلک کے ہوائی اڈے کو استعمال کیا۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے ترک فوجی بغاوت کی حمایت کے الزامات جھوٹے اور ترک امریکا تعلقات کے لیے نقصان دہ ہیں۔