صحت و سائنس
20 اگست ، 2016

کانگو وائرس: کوئٹہ میں 11، کراچی 5،پنجاب میں 2 افرادجاں بحق

 

 

کانگو وائرس کی وجہ سے اس سال کوئٹہ میں 11 کراچی میں 5 اور پنجاب میں 2 افراد موت کا شکار ہو گئے۔

بچے،بڑے،جانور خریدنے والے،جانور بیچنے والے محتاط ہو جائیں،جان لیوا کانگو وائرس نے تیور دکھانا شروع کر دیے، کراچی میں کانگو وائرس نے ایک اور جان لے لی۔

شہر میں وائرس کے شکار افراد کی تعداد پانچ ہوگئی، یہی وائرس کوئٹہ میں 11اورپنجاب میں دوکو افراد شکارکر چکا ہے، عید قرباں نزدیک ہے اور مویشی منڈیوں میں جانوروں کے معائنے کے انتظامات غیر تسلی بخش ہیں۔

کراچی میں مویشیوں کابیوپاری کانگو وائرس سے ہلاک تین ہفتوں کے دوران کانگو وائرس سے یہ تیسری جبکہ اس سال پانچویں ہلاکت ہے۔

کروڑوں روپے کمانے والی منڈی انتظامیہ نے بیوپاریوں اور جانوروں کے طبی معائنے کا بندوبست نہیں کیا، بلدیہ کا وٹنری ڈپارٹمنٹ بھی غیر فعال ہے، ایڈمنسٹریٹر کراچی نے پانچ ہلاکتوں کے بعد جانوروں کے معائنے کی ہدایت جاری کردی۔

کراچی میں اس سال کانگو وائرس کا پانچواں شکار صرف 22 سال کا اللہ دِتہ مویشیوں کا بیوپاری تھا جو عیدالاضحی پر جانور بیچنے بہاول پور سے کراچی آیا مگر موت کا شکار ہوگیا، شہر میں تین ہفتوں کے دوران کانگو وائرس سے یہ تیسری ہلاکت ہے۔

اس سے پہلے 11 اگست کو 65 سالہ عبدالحکیم اور 30 جولائی کو بہاولپور وکٹوریہ اسپتال کا ایک افسر بھی کراچی کے اسپتال میں دم توڑ چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اپنے اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے والے ان 5 انسانوں کی ناگہانی موت کا ذمے دار کون؟کیا دنیا بھر کے طبی ماہرین یہ وارننگ نہیں دیتے کہ کانگو سے پناہ مانگو کہ جانور ہوں یا انسان کانگو وائرس لگتے ہی دو سے تین دن میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

اور یہ بھی کہ اس وائرس کی تشخیص ہی عموما اُس وقت ہوتی ہے جب مریض علاج کی حدوں سے نکل کر موت کی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے۔

تو پھر ہر سال کروڑوں روپے کمانے والی انتظامیہ نے منڈیوں میں آنے والے بیوپاریوں اور مویشیوں کے طبی معائنے کا انتظام 5 ہلاکتوں سے پہلے کیوں نہیں کیا؟

کروڑوں روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود بلدیہ عظمیٰ کراچی کا وٹنری ڈپارٹمنٹ غیر فعال کیوں ہے؟ دو ہفتے قبل کے ایم سی نے کانگو وائرس کی ہیلتھ ایڈوائزی جاری کی تھی اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کیاگیا؟

کانگو وائرس کے جان لیوا آثار نمودار ہونے کے بعد ایڈمنسٹریٹر کراچی نے سپرہائی وے اور ملیر میں قائم مویشی منڈیوں کی انتظامیہ کو خط لکھ دیا اور تمام جانوروں کا معائنہ کرانے کی ہدایت بھی کردی، مگر تمام متعلقہ حکام کو معلوم ہونا چاہئے کہ کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے اور یہاں ہر عیدالاضحی پر لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے،فوری طور پر حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے تو سیکڑوں یا ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کی زندگیاں داؤ پر لگ سکتی ہیں۔

 

مزید خبریں :