08 ستمبر ، 2016
غلام قادر روہیلہ برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص گزرا ہے جس نے مغل شہنشاہ شاہ عالم کی آنکھیں نکلوا ڈالیں اور مغل شہنشاہیت کے جبروت اور سطوت کی نشانی لال قلعہ میں تیمور اور بابر کی بیٹیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا۔
شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے ’بانگ درا‘ میں اپنی نظم ”غلام قادر روہیلہ“ میں اقوام کے عروج و زوال کے اہم اسباب میں سے ایک اہم سبب پر روشنی ڈالی ہے اسی لئے انہیں ”دانائے راز“ کہا جاتا ہے:
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
علامہ اقبالؒ نے برصغیر کی تاریخ کے اہم دردناک واقعے کی طرف اشارہ کردیا ہے‘ جب غلام قادر روہیلہ نے لال قلعہ کے دیوان خاص میں جہاں کبھی شہاب الدین محمد شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر تخت طاؤس پر بیٹھ کر ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے‘ اسی دیوان خاص میں اس نے مغل شہزادیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا اور خود خنجر پاس رکھ کر سوتا بنا لیکن مغل شہزادیاں ناچتی رہیں۔ اس وقت غلام قادر روہیلہ نے یہ تاریخی جملہ بولا:
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت و حمیت باقی رہ گئی ہو گی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب مغل شہنشاہیت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
سن1857ء کی جنگ آزادی کے بعد آخری مغل شہنشاہ سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفرؔ کو لال قلعہ دہلی میں اُس دیوان عام میں عام ملزم کی طرح جب کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا‘ لال قلعہ کے اُس دیوان میں جہاں اُس کے بزرگ تخت طاؤس پر جلوہ گر ہو کر کوہ نور اپنے قیمتی تاج پر سجائے دربار لگایا کرتے تھے اور دنیا کی سب سے زیادہ باوسائل اور خوشحال سلطنت کے مطلق العنان حکمراں کی حیثیت سے لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرتے تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کے سفیر ”مغل دربار“ میں حاضری کو اپنی خوش قسمتی تصور کرتے تھے‘ وہیں ایک حقیر سے مجسٹریٹ کے سامنے مغل شہنشاہ بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ اُسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ شاطر انگریز اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ مغل شہنشاہ پربغاوت کے مقدمے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے کیونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی اجازت سے اختیارات استعمال کر رہی تھی‘ مغل شہنشاہ اپنے ہی خلاف کیسے بغاوت کر سکتا تھا۔
خیر یہ عبرت ہے اُن اقوام کے لئے جو غیرت و حمیت کھو دیتی ہیں۔ شاطر انگریز نے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی سے ایک سبق اور بھی سیکھا کہ آخر دو مختلف قومیں (ہندو اور مسلمان) انگریزوں کے خلاف اکٹھی کیسے ہو گئیں اور انہوں نے مغل شہنشاہیت کے جھنڈے تلے آزادی کی جنگ کیسے لڑی۔ سو نئی پالیسی آ گئی ’’رول اینڈ ڈیوائیڈ‘‘ یعنی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘۔
ابھی بھی بددیانت انگریز کی اس پالیسی کے اثرات برصغیر کے عوام بھگت رہے ہیں۔ مغل شہنشاہوں نے اپنی رواداری کی پالیسی سے جو زبردست اثرات اس خطے پر مرتب کئے وہ شاطر انگریز نے زبان‘ ثقافت‘ نصاب اور تاریخ کی تبدیلی سے ختم کر دیئے۔ سامراج کے زہریلے نصاب نے ہمارے درمیان فاصلے اور دوریاں پیدا کر دیں۔
سرسید احمد خان کی زبردست حکمت عملی نے مسلمانوں کو سنبھالا اور ایسے دانشوروں کا گروہ وجود میں آیا جنہوں نے پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ آخرکار 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
ہم وہ قوم ہیں جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ ”ڈومور“ اب تو صرف پاکستان کی سانسیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ خدارا! جاگ جاؤ‘ اللہ تعالیٰ انہی اقوام کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتی ہیں‘ جو متحد ہوتی ہیں۔
1971ء میں ہم آدھا پاکستان گنوا بیٹھے اور نام نہاد دانشور بھی اس پر بہت تبصرے کر چکے۔ اب بحیثیت قوم سنبھل جانا چاہئے۔ ہمیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ ہماری غلطیاں ہیں‘ خطائیں ہیں۔ ہمارے اپنے غیروں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں لیکن کیا ہم اس سے غیروں کو کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ ہمارے ناسمجھ لوگوں کو مزید گمراہ کرتے رہیں۔
جب بش جونیئر نے عراق پر حملہ کیا تھا کہ اس کے منہ سے کروسیڈ کے الفاظ نکل گئے تھے کہ بعد میں اس کی تردید جاری کر دی گئی لیکن جارج بش نے اپنے اقدامات سے ثابت کر دیا کہ وہ مسلمانوں سے صلاح الدین ایوبی کا بدلہ لے رہا ہے۔ مسلمانوں کو کب سمجھ آئے گی‘ کب آنکھیں کھلیں گی۔ نئے زمانے اور اقدار نے مسلمانوں کو ”ٹائی والیکلرکس“ بنا کر اپنے آدھے مسئلے تو حل کر ہی لئے ہیں۔
سن 1971ء میں پاکستان ٹوٹتا ہے تو اندراگاندھی کہتی ہے کہ مسلمانوں سے ہزار سالہ بدلہ لے لیا۔ بش کہتا ہے کہ کروسیڈ ہے۔ ایک فرانسیسی جنرل صلاح الدین ایوبی کی قبر کو ٹھوکر مار کر کہتا ہے: ”اٹھو صلاح الدین ہم آگئے ہیں۔“
کہاں گئی ہے ہماری حمیت و غیرت!… ہمارے ہزاروں شہری ہلاک‘ سینکڑوں فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ ہماری معیشت اغیار کے ہاتھوں گروی رکھی جا چکی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
ماضی کے حکمرانوں نے اپنی ناعاقبت اندیشیوں سے اس عظیم قوم کو ’منگتی‘ قوم بنا کر رکھ دیا ہے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی حکمراں مسلط کر دئیے جاتے ہیں ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا ہو گا، اپنا احتساب خود کرنا ہو گا۔ دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی غلطیاں سدھارنا ہوں گی۔
حکمرانوں پر تنقید ہو یا کسی دوسرے پر بہت آسان ہے لیکن ہمیں اپنی حماقتوں کا تجزیہ کرنا ہو گا اور اپنی اصلاح خود کرنا ہو گی کیونکہ اللہ آسمانوں سے فرشتے نہیں بھیجا کرتا قوموں میں اگر غیرت اور حمیت ہو تو وہ اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرتی ہیں۔