16 ستمبر ، 2016
جب سے انتظار حسین صاحب ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں ،دنیائے علم و ادب پر ایک ہو کا عالم طاری ہے۔ان کے پڑھے ہوئے افسانے اور پاک ٹی ہاؤس میں ہونے والی ملاقاتیں رہ رہ کر یاد آ رہی ہیں۔
میں نے ان کا پہلا افسانہ فراموش بچپن میں پڑھا تھا اور ان سے پہلی ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں نوجوانی کے زمانے میں ہوئی تھی،تب سے اب تک نہ میں ان کے افسانوں کے سحر سے باہر آسکا اور نہ ہی ان کی شخصیت کے طلسم سے آزاد ہو سکا۔ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بیس سال تک رہا اور ان سے مل کر ہمیشہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ایک فرد سے نہیں بلکہ ایک تہذیب سے ہم کلام ہوں۔
جب سے ہوش سنبھالا میں اس ودیا ساگر میں ڈوبا تھا۔یہ سنسار میرے لیے دکھ کا استھان تھا جسے انتظارحسین صاحب نے آنند گیت سے بھرنے کی کوشش کی تھی۔خیمے کے اندر بھی ایک نراج تھا اور خیمے سے دور بھی ایک نراج، تعزیے نکلتے تھے اور علم لہراتے تھے، وہ اسی نراجیت اسی بیگانگیت اسی مابعدالطبیعیاتی وحشت، اسی ازلی تنہائی کے نوحہ گر تھے۔
انسان ان کے لیے زمان ومکاں کی وسعتوں میں ایک افتادہ وجود تھا،ایک وجود برائے مرگ تھا۔ مظہریت کا جو ماورائی شعور انتظار صاحب کو حاصل تھا بہت کم اردو ادیبوں کے حصے میں آیا ہے۔ وہ شہر افسوس کی ہر گزر گاہ پر آئینہ بردار کھڑے رہے، اس آئینے میں نقوش بگڑتے ہی جا رہے تھے۔پرندہ جب ہجرت کر جائے تو پنجرہ خالی رہ جاتا ہے۔وہ دیو مالا کو کس ہنر سے برتتے تھے اور منہ بنانے پہ کس قدر قدرت رکھتے تھے۔ان کے پاس آنے والا ہر لفظ ایک حکایت اور ایک تمثیل بن جاتا تھا۔
انتظار صاحب ایک گیانی تھے ایک مہاتما تھے۔وہ پورا گیان پانے کے لیے بے تاب تھے اور گیان اور وجود کے ایک ہو جانے کی علمیاتی اور وجودیاتی معراج تک پہنچ جانے کی لپک رکھتے تھے۔ماضی ان کے لیے ایک بھیدوں بھرا کنواں تھا۔وہ اس کنویں سے ہمیں اوک اوک پانی پلاتے رہتے تھے۔ان کے نزدیک سب سے بڑا روگ آتما کے ہونے کا روگ تھا۔ آتما کی یہ بے کلی انھیں سادھووں اور سنتوں کی طرح بنوں میں لیے لیے پھرتی تھی۔
وہ اس سنسار کو ایک تخلیقی شان سے مدھ بھرے نینوں سے دیکھتے رہے۔ گنگا جمنی اور فرات کی تہذیبوں نے ان کے ثنویتی شعور کی آبیاری کی تھی۔وہ کیا گلی کوچے تھے جہاں سے انھوں نے اپنی کہانیاں کشید کی تھیںجہاں قیوما کی دکان تھی۔ انھوں نے ایک تہذیب کی تقلیب ماہیت ہوتے دیکھی تھی جس نے ان کے شعور کو ہمیشہ کے لیے الم سے بھر دیا تھا۔ان کے نزدیک اشیا و مظاہر کائنات کی ماہیت کچھ اور ہی طرح کی تھی۔ان کا انداز فکر کچھ اور ہی نوعیت کا تھا۔ ان کا بیانیہ کچھ اور ہی قسم کا تھا۔ان کا محزوں تفکر روح کی تاریک رات کو رہ رہ کر محسوس کرتا تھا۔وہ کائناتی مغائرت کے افسانہ گر تھے۔
یہ سادھو منش انسان ہماری اس حرص و ہوس کی دنیا میں زندہ تھا،اسے بہ نظر غائر دیکھتا تھا اور ایک اور ہی طرز سے زیست کرتا تھا۔انھوں نے اسی دنیاکو دیکھ کر افسانہ زرد کتا لکھا تھا۔ کیا وہ ایک صوفی تھے کہ نفس کی کثیرالجہت ہلاکتوں سے آگاہ تھے اور ہمیں ان سے مامون رکھنا چاہتے تھے۔وہ انسان کی نفسی کیفیات کی گرہ کشائی پر عبور رکھتے تھے۔وشنو بھگتی تحریک کا ان پر خاص اثر تھا۔
انتظار حسین نے جس انسان کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے وہ اپنی تہذیب کا زائیدہ اور اپنی ذات کے دھندلے عکس میں ڈوبا ہوا ایک لاچار انسان ہے جو ہمیشہ اپنے آپ ہی کو اپنے روبرو پاتا ہے۔یہ ایک جبلتی حیوان کے ساتھ ساتھ ایک ثقافتی مظہر بھی ہے۔انتظار حسین نے اس انسان کو اس کی اپنی زبان میں پیش کیا ہے۔یہ انسان تہذیب کی ایک اکائی بھی ہے اور ایک علامت بھی۔
انتظار حسین کا اسلوب سر تا سر ان کا اپنا ذاتی اسلوب تھا جن پر ان کی ذات کی گہرائیوں کے ان مٹ نقوش مرتسم ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنے لیے بالکل الگ تھلگ صوتیاتی، صرفیاتی،نحویاتی اور معنویاتی نظام مرتب کیے اور انھیں اپنی شناخت بنائے رکھا۔انھوں نے زیریں اور بالائی ساختیاتی سطحوں میں خاص تبدیلیاں پیدا کیں اوراپنا مخصوص بیانیہ تشکیل دیا۔ان کی زبان بے حد اختراعی اور تخلیقی ہے۔ان کے افسانے اپنے خاص تہذیبی حوالہ رکھتے ہیں۔ان کے ہاں ایک دلکش تہذیبی رچاؤ نظر آتا ہے۔ ان کا افسانوی جہاں اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی نیم تاریک فضا سے تشکیل پاتا ہے۔
انتظار حسین ایک زبردست مترجم بھی تھے۔انھوں نے ترجمے کو ایک نئی تخلیقی آب وتاب سے نوازا۔ ان کا غیر افسانوی ادب ان کی شخصیت کی تہ در تہ رمزیت کو آشکار کرتا ہے۔ بہ حییثیت ایک صحافی میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کے کالم صحافتی و ادبی نقطہ نظر سے بلند پایہ مقام کے حامل ہیں۔وہ نگار خانہ ادب کی ایک ممتاز اور ہشت پہلو شخصیت تھے اور ان کے جانے سے یہ نگار خانہ اجڑا اجڑا اور ویران ویران سا لگ رہا ہے۔ان کے جانے سے اردو ادب کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید ہی پر ہو سکے۔